کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 215
مقتول سے سلب ہوگیا، کیونکہ مغربی حکومتوں میں سے کسی میں بھی قتل عمد میں دیت و عفو کی رعایت نہیں ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ قرآنی قانون میں وہ ’سقم‘ باقی رہ جاتا، جو دانشورانِ مغرب کی نگاہ میں اسلام کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔ ’قرآنی حمیت‘ ، ’مفکر ِقرآن‘ پر غالب آئی تو انہوں نے پنی جدید تعبیر کی رو سے قرآنی قوانین سے اس ’عیب‘ کو دور کر ڈالا جو خود خدا کے اپنے الفاظ سے پیدا ہوگیا تھا (معاذ اللہ) ملاحظہ فرمائیے تعبیر جدید کو … ’’قصاص: اس کے معنی ’جرم کی سزا‘ دینا نہیں ، اس کے معنی ہیں ’مجرم کا اس طرح پیچھا کرنا کہ وہ بلا گرفت نہ رہ جائے‘ یعنی قرآنی نظام میں کسی جرم کوUntraced نہیں رہنا چاہئے، وہ اس قسم کے محکم نظام تفتیش میں حیاتِ اجتماعیہ کا راز بتاتا ہے۔‘‘ (اگست۶۵ء:ص ۱۲) (وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَيَاهٌ يّٰاُوْلِیْ الاَلْبَابِ) (البقرۃ:۱۷۹) اس کے بعد آیت ِ قصاص (البقرۃ:۱۷۸) کی تشریح کو الفاظ ِآیت تک محدود رکھنے کی بجائے، آیت ِقتل خطا کے ساتھ خلط ِمبحث کیا جاتا ہے اور نتیجہ یہ کشید کیا جاتا ہے کہ قتل عمد میں عفو و دیت ہے ہی نہیں ، اس میں اگر ایسا ذکر ہوا ہے تو وہ قتل خطا کے ساتھ متعلق ہے : ’’جرمِ قتل: قرآن نے قتل عمد (بالارادہ) اور قتل خطا (سہواً) میں فرق کیا ہے۔ قتل خطا کی سزا (یا یوں کہئے کہ کفارہ یا جرمانہ) ایک مؤمن غلام کا آزاد کرنا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا ادا کرنا ہے۔ وہ اس خون بہا کو معاف کرسکتے ہیں ۔(۴/۹۲،۹۳) واضح رہے کہ ’غلام آزاد کرنا‘ اس زمانے کی بات ہے جب عربوں کے ہاں غلام چلے آرہے تھے، اسلام نے غلامی کا دروازہ بند کردیاہے ۔ لہٰذا یہ نظام معاشرہ تجویز کرے گا کہ اس کی جگہ کیا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ قتل عمد کے لئے دیت (خون بہا) نہیں ، اس کی سزا بڑی سخت ہے۔ ا س کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کی سزا جہنم ہے اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور بہت بڑی سزا (۹۳/۴)۔ میں اس وقت ان مختلف سزاؤں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، لیکن یہ واضح رہے کہ قتل عمد کی بھی مختلف نوعیتیں ہیں ۔ایک قتل سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہوتا ہے اور ایک وقتی جوش میں آکر وقتی طور پر (وغیرہ وغیرہ) اس اعتبار سے جرم کی سزا میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ قرآن کے مختلف مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عدل کے تقاضے کی رو سے جرمِ قتل عمد کے لئے موت کی سزا بھی تجویز کرتا ہے۔ (مثلاً ۱۷۸/۲، ۳۵/۵، ۳۳/۱۷) ’’قتل نفس بالحق‘‘ سے مراد قانونِ خداوندی کے مطابق کسی کی جان لینا۔‘‘ (ماہنامہ طلوعِ اسلام: اگست۶۵ء، ص۱۴) سیدھی سی بات ہے کہ قرآن نے قتل عمد میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) کے علاوہ، دیت اور عفو کی رعایات بھی رکھی ہیں اور قتل خطا میں قصاص ہے ہی نہیں ۔ اس میں کیا اُلجھن ہے؟؎