کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 214
(فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَاْنحَرْ) (۲/۱۰۰) ’’لہٰذا اپنے پروردگار کے لئے نماز قائم کرو اور قربانی کرو۔‘‘ (معارف القرآن:۴/۳۶۹) لیکن جب پرویز صاحب کا ذہن قربانی سے متعلق معکوس ہوگیا تو اب وَانْحَرْکا مفہوم بھی کچھ اور ہی ہوگیا : ’’اب تیرے لئے ضروری ہے کہ تو اس کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے، اس کے لئے تو اپنے پروگرام کی تکمیل میں ہمہ تن مصروف رہ۔ خدا کے نظامِ ربوبیت کے قیام کے لئے اپنے فرائض منصبی کو پوری طرح ادا کر، ان پر علم و عقل اور تجربہ و مشاہدہ سے پوری طرح حاوی ہو، اور اس کے ساتھ ہی اپنی جماعت کے لوگوں کے کھانے پینے کا بھی انتظام کر۔‘‘ (مفہوم القرآن، ص۱۴۸۸) یاد رہے کہ خط کشیدہ الفاظ وَانْحــَرْ کے مفہوم کے لئے استعمال کئے گئے ہیں ۔ اسی صفحہ پر نیچے حاشیہ میں یہ عبارت بھی موجود ہے : ’ نَــهــر اونٹ ذبح کرنے کو کہتے ہیں ۔‘‘ اب اس ’مفکر قرآن‘ کو کون سمجھائے کہ یہ لفظ نھر نہیں بلکہ نَحْر ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ وقت کی آندھیوں نے ’مفکر قرآن‘ کا بوجھ کس جاہل کے سر پر لا پھینکا ہے۔ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے﴿ مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا﴾ (الجمعہ:۵) مثالِ ثامن آیت ِقصاص بھی، ان آیات میں سے ایک ہے جن کی ’تعبیر‘ پرویز صاحب کے انقلابِ ذہن کے ساتھ ہی منقلب ہوگئی۔ اس آیت کی ایک تعبیر وہ ہے جو معارف القرآن جلد اوّل، ص ۱۴۰ پر موجود ہے۔ جس کے نتیجہ کے طور پر قصاص کا معنی ’قتل کا بدلہ قتل‘ نیز قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی اولیائِ مقتول کے ہاں برقرا ر رہتاہے۔ پرویز صاحب نے زیر عنوان ’شریعت میں خدا کی طرف سے آسانیاں ‘ لکھاہے : ’’پھر شریعت میں ایسی آسانیاں مل جانا جن سے قوانین ممکن العمل ہوجائیں ، رحمت ِخداوندی ہے مثلاً قانونِ قصاص کی رو سے قتل کا بدلہ قتل ہے، لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ ( فَمَنْ عُفِیَ لَهُ مِنْ اَخِيْهِ شَيْیٌٔ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ، ذٰلِکَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرْحَمَهٌ) ’’اگر (قاتل کو) اس کے بھائی (مدعی) کی طرف سے معافی مل جائے تو (اس کے لئے) معقول طریقہ پر خون بہا کا مطالبہ ہے اور (قاتل کے لئے) خوبی کے ساتھ اس کا ادا کرنا۔ یہ (قانون دیت وعفو) تمہارے پروردگار کی طرف سے سختیوں کا کم کردینا اور ترحم (خسروانہ) ہے…‘‘ (معارف القرآن، جلد اوّل، ص۱۴۰) لیکن جب تہذیب ِمغرب کی فکری یلغار نے ذہن ِپرویز کو مسخر کیا اور وہ مغرب کے تمدنی قوانین سے مرعوب ہوئے تو (۱) قصاص کے معنی بھی بدل گئے اور (۲) قتل عمد میں دیت اور عفو کا اختیار بھی، اولیاءِ