کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 213
ا س کے بعد تفسیر مطالب الفرقان میں خُذِ العَفْوَ پر بحث کرتے ہوئے اس کی تعبیر کو یکسر بدل دیا اور اس بات کا قطعاً خیال نہ کیا کہ یہ مکی دور کی وحی ہے، جس میں اسلامی حکومت کی داغ بیل پڑی ہی نہ تھی اور اہل ایمان جو پہلے ہی زیادہ تر مفلس اور خستہ حال لوگوں پر مشتمل تھے، معاشی طور پر کفار کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے، ایسے حالات میں یہ نئی تعبیر قطعاً موزوں نہیں بیٹھتی۔ لیکن ’مفکر قرآن‘ کو اس سے کیا، انہیں تو اپنے پندار علم کا مظاہرہ کرنا ہے، تاکہ یہ نت نئی تعبیرات،اندھے معتقدین کے قلوب واذہان پر ان کی ’تبحر علمی‘ کی دھاک بٹھا دیں ۔ لکھتے ہیں : ’’العفوکا لفظ آیت (۲۱۹/۲) میں آیاہے جہاں بالبداہت ’زائد از ضرورت‘معنی ہی موزوں ہیں ۔ چنانچہ میں نے مفہوم القرآن میں یہی معانی لکھے اور مطالب الفرقان جلد سوم ص۳۲۶ پر بھی، اس کے مطابق وضاحت کی۔ ا س کے بعد یہ لفظ زیر نظر آیت (۱۹۹/۷) میں آیا تو مجھے اپنی بصیرت کی رو سے، اس کا دوسرا مفہوم یعنی ’درگزر کرنا‘ موزوں دکھائی دیا۔ چنانچہ میں نے یہی ترجمہ مفہوم القرآن میں دے دیا (اس کا عام طور پر یہی ترجمہ کیا جاتا ہے)۔ اس کے بعد ایک بحث کے دوران میں نے محسوس کیا کہ یہ مفہوم مزید تحقیق کا متقاضی ہے۔ بالخصوص لفظ خُذْ کے پیش نظر جس کے معنی ’وصول کرنے یا لینے‘ کے ہیں ، اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی آیت (۱۰۳/۹) ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً﴾ اس کی مؤید تھی۔ اس غوروفکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آیت (۱۹۹/۷) میں بھی العفو کا وہی مفہو م زیادہ موزوں ہے، جو آیت (۲۱۹/۲) میں دیا گیا ہے یعنی ’زائد از ضرورت مال‘۔ اس آیت میں اسلامی نظام (یا اس کے سربراہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہا گیا ہے کہ جماعت مؤمنین کا زائد از ضرورت مال اپنی تحویل میں لے لیا کرو تاکہ اس طرح اجتماعی طور پر قرآن کا معاشی نظام قائم رہے۔ مفہوم القرآن (آیت ۱۹۹/۷) کے مفہوم میں ترمیم، اس کے نئے ایڈیشن میں کردی جائے گی ۔ البتہ اس دوران میں ، تبویب القرآن میں ’عفو‘ کے عنوان کے تابع یہ مفہوم دے دیا گیا ہے۔‘‘ (تفسیرمطالب الفرقان: ج۶، ص۵۵) عفو کا معنی ’زائد از ضرورت مال‘ صرف وہاں لینے کی گنجائش ہوتی ہے، جہاں اس کا مالی خرچ یا مال سے متعلق ہونے کا کوئی قرینہ موجو دہو، جیساکہ آیت (۲۱۹/۲) میں لفظ يُنفقون میں یہ قرینہ موجود ہے۔ لیکن آیت زیر بحث میں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے لیکن مفکر ِقرآن کو ان اُمور سے کیاسروکار؟- دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے! مثالِ سابع قرآن کی درجہ ذیل آیت مع ترجمہ از پرویز صاحب ملاحظہ فرمائیے: