کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 212
وپریشان کھڑ ا سوچ رہا ہے کہ وہ کس کی بات مانے؟ مُنَزِّلِ قرآن کی؟ یا مفکر ِقرآن کی؟ مثالِ خامس قرآنِ کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تذکارِ جلیلہ میں یہ آیت بھی وارد ہوئی ہے : ﴿ وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ يٰاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ﴾ (النمل:۱۶) ’’حضرت سلیمان (علیہ السلام) حضرت داؤد (علیہ السلام) کے وارث بنے اور کہا : ’’اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔‘‘ یہ ترجمہ بھی پرویز صاحب ہی کا دیا گیا ہے ، جو معارف القرآن جلد سوم ص۴۰۵ پر درج ہے۔ اس میں ﴿ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ﴾ کی تعبیر یہ کی گئی ہے کہ ’’ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔‘‘ انہی الفاظ کا ترجمہ، برقِ طور ص۲۵۳ پر بایں الفاظ کیا گیا ہے … ’’لوگو! ہمیں مَنْطِقَ الطَّیْرِسکھایا گیا ہے۔‘‘ آگے چل کر مَنْطِقَ الطَّیْرکی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’مَنْطِقَ الطَّيْرِ کے معنی ’پرندوں کی بولی‘ نہیں ، جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں ( یعنی ’برقِ طور‘ ہی میں … قاسمی) طَیر سے مراد گھوڑوں کا لشکر ہے (جو حضرت داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں بیشتر قبیلہ طیر کے افراد پر مشتمل تھا) اور مَنطق کے معنی اس قبیلہ کے قواعد و ضوابط ہیں ۔ لہٰذا اس سے مطلب ہے: ’’گھوڑوں کے رسالہ کے متعلق علم‘‘ یہ اس زمانہ میں بہت بڑی چیز تھی۔‘‘ (برقِ طور : ص۲۵۳ تا ۲۵۴) معارف القرآن کی محولہ بالا عبارت میں مَنْطِقَ الطَّيْر کا معنی ’پرندوں کی بولی‘ہے اور برق میں ٹھیک اسی معنی کی نفی کی گئی ہے اور جوجدید معنی پیش کیا گیا ہے، اس کا لغوی طور پر قرآن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ ا س سے اندازہ لگا لیجئے کہ طلوعِ اسلام کی ٹکسال میں مختلف اور متضاد معانی کے سکے وقتاً فوقتاً کس طرح ڈھالے گئے…!! مثالِ سادس سورۃ الاعراف کے آخری رکوع میں ’آدابِ تبلیغ‘ کے ضمن میں یہ الفاظ آئے ہیں : ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ﴾ (الاعراف: ۱۹۹) (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) درگزر کرتا رہ، معروف کی تلقین کئے جا اور جاہلوں سے نہ اُلجھ۔‘‘ خُذِ العَفْوَ کا مفہوم کیاہے؟ ملاحظہ فرمائیے: ’’ بہرحال، تم ان کی ان باتوں کی وجہ سے اپنے پروگرام میں رُکو نہیں ) تم ان سے درگزر کرتے ہوئے آگے بڑھتے جاؤ۔‘‘ (مفہوم القرآن: ص ۳۹۰)