کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 211
مثالِ رابع قرآنِ کریم میں قومِ نوح کا انجام بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے ﴿ فَکَذَّبُوْهُ فَاَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِیْ الْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا إِنَّهُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ﴾ (الاعراف:۶۴) ’’پس انہوں نے اسے جھٹلا دیا تو ہم نے اسے اور جو کشتی میں اس کے ساتھ تھے، ان سب کو بچا لیا اور جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، انہیں ہم نے غرق کردیا۔ یہ تھے ہی اندھی قوم۔‘‘ اب سوال پیدا ہوتا کہ قوم نوح کا یہ انجام ان کے تکذیب ِحق اور غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ تھا؟ یا محض طبعی حوادث کا؟ … ۱۹۴۵ء؁ کو ان کا موقف یہ تھا : ’’قومِ نوح کی غرقابی کے واقعہ پر سرسری مؤرخانہ نگاہ صرف اتنا بتا سکے گی کہ پانی کا بلا انگیز طوفان آیا اور (سوائے ان لوگوں کے جو کشتی میں سوار تھے) سب غرق ہوگئے۔ ان کی بستیاں نذرِ سیلاب ہوگئیں ۔ سارے علاقے میں کوئی متنفس باقی نہ رہا۔ جہاں اس شدت کا سیلاب آتا ہے ایساہی ہوتا ہے … لیکن قرآنِ کریم زاویۂ فکرو نظر کو کسی اور طرف بدل دیتا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ قومِ نوح نے دعوتِ حق و صداقت کی تکذیب کی اور ان کے جرائم کی پاداش میں ان کا استہلاک ہوا۔‘‘ (معارف القرآن: جلد دوم، ص۳۷۰) یہ ’تعبیر قرآن‘قبل از قیامِ پاکستان تھی، قیام پاکستان کے بعد ’نئے تقاضوں ‘ کے لئے ظاہر تھا کہ’نئی تعبیر‘ درکار تھی۔ چنانچہ آزاد فضاؤں میں قومِ نوح کا انجام بھی اخلاقی عنصر سے آزاد ہوگیا : ’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حوادث ان کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھے یا انہیں ان کی تباہی کا موجب بنا دیا گیا تھا؟ اس کے لئے سب سے پہلے یہ دیکھئے کہ آج بھی زلزلے آتے ہیں ، آتش فشاں پہاڑ پھٹتے ہیں ، سیلاب بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کردیتے ہیں ، آندھیوں کے طوفان چلتی ہوئی ریل گاڑیوں کو اُٹھا کر دریاؤں میں پھینک دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واقعہ ہے کہ یہ حوادث کسی قوم کی بدعملیوں کا نتیجہ نہیں ہوتے۔‘‘ ( جوئے نور، ص۲۹) ’’یہ حوادث، نہ تو کسی قوم کے غلط اخلاقی اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان سے صرف بداعمال لوگ تباہ ہوتے ہیں ۔‘‘ (جوئے نور، ص۲۹) اس نئی تعبیر کا ایک ایک لفظ قرآن کی بیان کردہ حقیقت سے ٹکراتا ہے۔ محولہ بالاآیت، اس امر کو واضح کر دیتی ہے کہ قومِ نوح کی غرقابی تکذیب ِحق کا نتیجہ تھی۔﴿ اَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا﴾ کے الفاظ واضح کرتے ہیں کہ عذابِ خداوندی کا نشانہ وہی لوگ بنے تھے جنہوں نے حق کی نشانیوں کو جھٹلا دیا تھا۔ اب رہے وہ لوگ جو قبولِ حق کرچکے تھے، تو اُنہیں اللہ تعالیٰ نے بچا لیا : ﴿ فَاَنْجَيْنَاهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِیْ الْفُلْکِ﴾۔ یہاں چوہدری غلام احمد پرویز کو اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہوگیا ہے اور بے چارہ قاری حیران