کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 210
’’دورِ حاضر کے انسان کے لئے جو سو سوا سو سال کے عمر کے آدمیوں کو دور دور سے دیکھنے کے لئے آتا ہے اور نہایت حیرت و استعجاب سے ان سے اس درازیٔ عمر کے راز دریافت کرتا ہے، اتنی لمبی عمر بمشکل باور کئے جانے کے قابل ہے (اس وجہ سے بعض حضرات عامًا ’سال‘ سے مراد ’مہینے‘ لینے پر مجبور ہو رہے ہیں )۔ لیکن حضرت نوح علیہ السلام ، آدم علیہ السلام سے دسویں پشت میں آئے ہیں اور ان کے تمام اسلاف کی عمریں ، آٹھ آٹھ ، نو نو سوسال کی لکھی ہیں ۔ لہٰذا ایک ایسے بعید ترین زمانے میں جب ہنوز انسان کے اعصاب دورِ حاضر کی برق آگیں تمدن اور رعد آمیز فضا کے مہلک اثرات کا شکار نہیں ہوئے تھے اور اسے ارضی و سماوی آفات کے مقابلے کے لئے قوی ہیکل جسم اور فولادی عضلات عطا کئے گئے تھے، اتنی لمبی لمبی عمریں کچھ باعث ِتعجب نہیں ہوسکتیں۔‘‘ (معارف القرآن: جلددوم، ص۳۷۶) ’’چین کے مشہور مذہب (Taoism)’’جس کا تفصیلی تعارف، دیگر مذاہب ِعالم کے سلسلہ میں جلد سوم، باب ظہر الفساد میں کیا جائے گا۔‘‘ کا ایک بہت بڑا مبلغ اور رِشی (Kwang) (جس کی پیدائش چوتھی صدی ق م کی ہے) اپنی چوتھی کتاب میں سمجھاتا ہے کہ عمر بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے کہ ’’میں بارہ سو سال سے اسی طریق کے مطابق زندگی بسر کر رہا ہوں اور اس پر بھی میرا جسم روبہ انحطاط نہیں ۔‘‘ (Sacred Books of the East, (Taoism) Translated by James Legge.( p.225) (معارف القرآن، جلد دوم، حاشیہ ص ۳۷۷) لیکن جب معارف القرآ ن جلد دوم کو ’جوئے نور‘ میں تبدیل کیا گیا تو اس آیت کی تعبیر بھی بدل گئی، لغت کے اس قارون کی طول طویل لغوی موشگافیوں اور دور خیز سخن سازیوں کے نتیجہ میں ’عمر نوح علیہ السلام ‘ بڑی مختصر ہوگئی… کیسے؟ ملاحظہ فرمائیے : ’’عربی لغت میں سَنَۃً کا اطلاق ’فصل‘ پر بھی ہوتا ہے جو سال میں چار ہوتی ہیں یعنی چار فصلوں کا ایک سال ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے أَلْفَ سَنَةٍکے معنی ہوں گے کہ ، اڑھائی سو سال اور عَام پورے سال کو کہتے ہیں ۔ اس لئے اگر خَمْسِیْنَ عَامًا کو اس میں سے منہاکردیا جائے تو باقی دو سو سال رہ جاتے ہیں اور اتنی عمر کچھ ایسی مستبعد نہیں ۔‘‘ (جوئے نور، ص۳۴) غور فرمائیے، پرویز صاحب کی آج کی اور کل کی تعبیر میں کتنا فرق ہے۔ کل ان کے لئے ساڑھے نو سو سال کی عمر باعث ِتعجب نہ تھی، بلکہ وہ بارہ بارہ سو سال کی عمر کے لوگوں کے حوالے تلاش کرکے لوگوں کے حیرت و استعجاب کاازالہ کیا کرتے تھے، لیکن آج دماغ کا رنگ بدلا، تو ساتھ ہی ’تعبیر قرآن‘ بدل گئی۔ یہ ہے وہ طریقہ جس کے ذریعہ پرویز صاحب کو ہر بات کا جواب قرآن سے مل جایا کرتا تھا، سچی بات ہے کہ ’’جب کوئی قرآن کو مسخ کرنے پر اُترآئے تو اُسے اس سے اپنی کون سی مصلحت کی سند نہیں مل سکتی …؟‘‘ (اکتوبر۷۹ء:ص۱۳ )