کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 209
سیاق وسباق کے بالکل مطابق ہے : ’’دنیا میں اسلامی حکومت وہی صاحب ِعزیمت قائم کرسکے گا جس میں یہ کہنے کی جرأت ہو کہ ’’ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔‘‘ یہی وہ جواب تھا جو خدا کی طرف سے اسلامی نظام کے مخالفین کو دیا گیا جب اس نے کہا تھا ﴿ اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ﴾’’کیا یہ بات ان کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) تجھ پر کتاب نازل کی جسے ان پر پیش کیا جارہا ہے۔‘‘ (جون۶۷ء: ص۲۱) ایک اور مقام پر اسی تعبیر کو مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے : ’’اپریل ۱۹۴۳ء کا ذکر ہے کہ صوبہ سرحد کی مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے قائداعظم سے ایک پیغام کے لئے درخواست کی۔ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’تم نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہیں پیغام دوں ، میں تمہیں کیا پیغام دوں جبکہ ہمارے پاس پہلے ہی ایک عظیم پیغام موجود ہے، جو ہماری رہنمائی اور بصیرت افروزی کے لئے کافی ہے، وہ پیغام ہے خدا کی عظیم کتاب قرآنِ کریم (تقاریر، جلد اول، ص۵۱۶) … یہ پیغام خود خدا نے حضور نبی اكرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لسانِ مبارک سے دیا تھا جب کہا تھا کہ﴿ اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ﴾ (۵۱/۲۹) ’’کیا یہ چیز ان کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے تیری طرف اس کتاب کو نازل کیا ہے جسے ان کے سامنے پیش کیاجارہا ہے۔‘‘ (اپریل۷۷ء:ص۱۶) ۱۹۶۷ء تک آیت کی تعبیر یہ تھی کہ وہ کفار کے مطالبہ معجزہ کے جواب میں انہیں یہ اعلان کر رہی تھی کہ ’’کیا یہ کتاب جو تم پر پڑھ کر سنائی جارہی ہے، بطورِ معجزہ تمہارے لئے کافی نہیں ہے۔‘‘ لیکن پھر اس کے بعد تعبیر آیت یہ ٹھہری کہ حدیث و سنت اور اُسوہ ٔ رسول کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہدایت و رہنمائی کے لئے یہی کتاب کافی ہے۔ یہ نت نئی بدلتی تعبیریں ، اس قرآن سے پیش کی جاتی ہیں جسے بڑی بلند آہنگی کے ساتھ، رافع اختلاف اور مزیل انتشار قرار دیا جاتا ہے؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کے معاملہ میں ذہن ِپرویز مداری کی ایسی پٹاری ہے، جس سے جب جیسی اور جو چاہی تعبیر نکال کر پیش کردی۔ مثالِ ثالث قرآنِ کریم نے حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق سورۃ العنکبوت کی آیت ۱۴ میں بیان کیا ہے کہ ﴿ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلَی قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا﴾ ’’ہم نے نوح علیہ السلام کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان پچاس کم ایک ہزار سال رہا۔‘‘ اس آیت کے متعلق پرویز صاحب عمر نوح علیہ السلام کے متعلق لکھتے ہیں :