کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 208
میں سے کسی ایک حکم کا مخاطب بھی شوہر نہیں رہتا اور تینوں اُمور کے کلی اختیارات ’معاشرہ‘ کوحاصل ہوجاتے ہیں اور یوں قرآن کی ’اسلامی تہذیب‘ اور مغرب کی مادّی مدنیت باہم گلے مل جاتی ہیں : ’’آپ نے غور فرمایا کہ اس پہلے مرحلہ میں بھی قرآنِ کریم نے معاشرہ کے لئے تین مرحلے رکھے ہیں : اول انہیں چاہئے کہ وہ نصیحت اور سمجھا بجھا کر حالات کی اصلاح کی کوشش کریں ۔ اگر اس کے بعد بھی حالات درست نہ ہوں تو پھر شوہر کو وہ ہدایت کریں کہ وہ اپنی بیوی کو خواب گاہ میں تنہا چھوڑ دے اور اس سے الگ الگ رہے، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو پھر عدالت اگرضروری سمجھے تو بیوی کو جسمانی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اگراس کے بعد وہ راہ پر آجائیں تو پھر ان میں مزید کسی زیادتی کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (فروری۵۷ء:ص۴۳) یہ ہیں طلوعِ اسلام کی قرآنی تعبیرات جو وقتاًفوقتاً مگر زندگی بھر بدلتی رہی ہیں ۔ بہرحال پرویز صاحب تھے تو سوچنے والے شخص، فضائے د ماغ میں خیال کا ایک نیا جھونکا آیا تو ’قرآنی تعبیر‘ بھی مرغ بادنما کی طرح بدل گئی۔ اس تغیر و تبدل کی رفتار کبھی سست ہوجاتی اور کبھی تیز، اتنی تیز کہ دو ٹکے کی جنتری تو سال بعد بدلتی ہے، مگر ’مفکر قرآن‘ کی تعبیر قرآن سال میں دو مرتبہ بھی تبدیل ہوجاتی۔ مثالِ ثانی سورۃ العنکبوت کی درج ذیل آیت مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیے : ﴿ اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ﴾ (۵۱/۲۹) ’’اور کیا ان لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔‘‘ اس آیت کی ایک تعبیر و تشریح، جناب پرویز صاحب نے ان الفاظ میں پیش کی ہے : ’’کافر کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے معجزے کیوں نہیں نازل ہوتے۔ کہہ دو کہ معجزے تو خدا کے پاس ہیں ، میں تو صرف تمہیں تمہاری غلط روش سے کھلم کھلا آگاہ کرنے والا ہوں ، کیا یہ قرآن بذاتِ خود معجزہ نہیں جو تم اور معجزے مانگتے ہو : ﴿ اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ﴾ (۵۱/۲۹) ’’کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ تم پر کتاب نازل کی گئی ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔‘‘ (اگست۶۶ء:ص۴۰) اس تعبیر کے مطابق قرآن کے کافی ہونے کو بطورِ معجزہ اور نشانی کے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اگلے ہی سال پرویز صاحب ایک نئی تعبیر پیش کرتے ہیں جس کے مطابق قرآن کی کفایت بطورِ معجزہ اور نشانی ہونے کی بجائے بطورِ ضابطہ حیات اور سرچشمہ قانون ہونا قرار پاتی ہے اوریہ نئی تعبیر حدیث و سنت سے جان چھڑانے کے لئے گھڑی گئی۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے یہ نئی تعبیر قطعی بے جوڑ ہے جبکہ پہلی تعبیر