کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 207
﴿ وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلاَ تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا﴾(النساء: ۳۴) ’’جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو، انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو اور مارو۔ پھر اگر وہ مطیع فرماں ہوجائیں تو ان پر زیادتی کی راہ نہ تلاش کرو۔‘‘ اس آیت میں بصورتِ نشوز عورتوں کی بابت تین احکام ہیں : ۱۔ انہیں سمجھاؤ، نصیحت کرو فَعِظُوْ هُنَّ ۲۔ خوابگاہوں میں تنہا چھوڑ دو وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ ۳۔ انہیں مارو پیٹو وَاضْرِبُوْ هُنَّ سوال یہ ہے کہ ان تینوں احکام کے مخاطب کون ہیں ؟ پرویز صاحب نے اس کے مختلف اوقات میں مختلف جوابات دیئے ہیں ۔ جنوری ۱۹۴۹ء میں ، ان تینوں احکام کا مخاطب شوہروں کو قرار دیا گیا : ’’سورۃ النساء میں ﴿ وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ﴾ ’’جن بیویوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو‘‘ تو ان کے متعلق کیا کرو؟ یہ نہیں کہ محض اس اندیشہ کی بنا پر ( یا ان کی کسی حرکت سے غصہ میں آکر) فوری تعلقات منقطع کر لو بلکہ’’فَعِظُوْهُنَّ‘‘ انہیں نرمی اور محبت سے سمجھاؤ، اگر وہ اس پر بھی سرکشی سے باز نہ آئیں تو وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ’’خوابگاہوں میں ان سے الگ رہنے لگو۔‘‘ ذرا غور کرو، سلیم! اگر عورت نیک سرشت اور شریف النفس ہوگی تو اس کے لئے یہ تنبیہ بہت کافی ہوگی۔ لیکن اگر حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ وہ اس پر بھی سرکشی سے نہ رکے، تو اس کی بھی اجازت ہے کہ ان پر سختی کی جائے۔ واضربوهن (تم انہیں مار بھی سکتے ہو)۔‘‘ (جنوری ۴۹ء: ص ۶۷) قرآن کی یہ تعبیر جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ لیکن اسی سال اکتوبر میں قرآن کی یہی تعبیر محتاج ترمیم قرار پاتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اب شوہر، بیوی کو صر ف وعظ و نصیحت ہی کرسکتا ہے لہٰذا وہ صرف فَعِظُوْھُنَّ ہی کے حکم کا مخاطب ہے۔ رہے باقی دو احکام (بیویوں کو خوابگاہوں میں چھوڑ دینا او رانہیں مارنا پیٹنا) تو اب ان کا اختیار شوہر کو نہیں رہا، بلکہ وہ حکامِ عدالت کی طرف منتقل ہوگیا۔ ﴿ وَالَّتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَاهْجُرُوْهُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْهُنَّ﴾ (۳۴/۴) ’’ جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا ڈر ہو، تو اس کے لئے تو سب سے پہلے باہمی افہام وتفہیم سے صلح صفائی کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اگر معاملہ اس سے نہ سلجھے تو پھربات حکام تک جائے گی، اب فیصلہ وہاں سے صادر ہوگا۔ عورت کا جرم ثابت ہوگیا تو ہلکی سزا تو یہ ہے کہ اسے ایک معینہ مدت کے لئے خاوند سے الگ کردیا جائے اور انتہائی صورت میں ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے بدنی سزا دی جائے۔‘‘ (اکتوبر ۴۹ء: ص ۹۲) ۱۹۵۷ء میں اس آیت کی ایک ایسی جدید تعبیر سامنے آتی ہے، جس کے نتیجے میں ان تینوں احکام