کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 206
کر جائیں کہ سال بھر انہیں گھر سے نہ نکالا جائے اور انہیں سامانِ زندگی دیا جائے‘‘ (مفہوم القرآن، ص۹۲) اوّل الذکر گروہ کی تعبیر کے مطابق، آیت کا تعلق لاپتہ شوہر کی بیوی کے نان و نفقہ سے ہے اور مؤخر الذکر طائفے کے ہاں ، تعبیر آیت یہ ہے کہ شوہر اپنی وفات کے وقت یہ وصیت کرجائیں کہ ایک سال تک اس کی بیوی کو گھر سے نکالے بغیر اسے خرچہ دیا جائے۔ یہ تینوں مثالیں اس امر کو واضح کردیتی ہیں کہ احادیث ِرسول کو نظر انداز کرکے کوئی شخص خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے دعووں کے ساتھ بارگاہِ قرآن میں آئے، وہ اختلاف تعبیرات سے محفوظ نہ رہ سکے گا۔ ان تینوں آیات کا مفہوم احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بعثت ِنبوی سے لے کر تاحال علماءِ اُمت میں متفق علیہ رہا ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سنت ِنبویہ کو نظر انداز کرکے تنہا قرآن کی بنیاد پر نہ صرف یہ کہ تعبیرات کا اختلاف ختم نہیں ہوگا بلکہ چودہ صدیوں میں جن مسائل پر اتفاق پایا جاتا ہے، وہ بھی اختلاف و انتشار کا شکار ہوجائیں گے۔ بلاغ القرآن والے ہوں یا طلوعِ اسلام والے، نیاز فتح پوری کے ہم مسلک ہوں یا عنایت اللہ مشرقی کے ہم مشرب، ’اُمت ِمسلمہ، امرتسر‘ کے وابستگان ہوں یا اسلم جیراجپوری کے متعلقین، ان سب کے ہاں قدرِ مشترک، صرف ’اسم قرآن‘ یا ’الفاظ قرآن‘ ہیں اور عملاً جو چیز درکا رہے وہ ’الفاظِ قرآن‘ نہیں ، بلکہ ’مفہومِ قرآن‘ یا ’تعبیر قرآن‘ ہے؛ اور یہ ’اہل قرآن‘ کے ہر گروہ کی الگ الگ ہے، ان تمام احزاب کو ’اسم قرآن‘ پر جمع کر بھی دیا جائے۔ تو اپنی اپنی ’تعبیر قرآن‘ اس تضادات کے گٹھے کو تادیر بندھا نہیں رکھ سکتی۔ ان سب کو اکٹھا کرنا، تناقضات کو جمع کرنے کے مترادف ہے۔ …………………… ’مفکر ِقرآن‘ کے تعبیری تضادات لیکن یہ مختلف گروہ ہیں جو تعبیر قرآن میں باہم مختلف ہیں ، کیا ان میں سے کوئی فرقہ بھی قرآن کی کسی ایک اور حتمی تعبیر پر برقرار رہا ہے؟ ہرگز نہیں ۔ غلام احمد پرویز کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ان کا پورا لٹریچر تضادات سے اَٹا پڑا ہے۔ ہر گردشِ زمانہ کے ساتھ ان کی تعبیرات بدلتی رہی ہیں ، لیکن بڑے تسلسل اور تواتر کے ساتھ وہ نام، قرآن ہی کا لیتے رہے ہیں ۔ چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیے : مثالِ اوّل قرآن عائلی زندگی میں جو اَحکام و ہدایات دیتا ہے، ان میں آیت (۳۴/۴) کا یہ حصہ بھی شامل ہے