کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 205
ہیں ۔ جن کا ترجمہ بالعموم یہ کیا جاتا ہے کہ ’’اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو( نہا کر) پاک ہوجاؤ۔‘‘ … حالت جنابت کیا ہے؟ اور جُنُبًا سے کون لوگ مراد ہیں ؟ بلاغ القرآن والوں کے نزدیک جنب کے معنی ہیں ’بدخوابی‘ ۔ ملاحظہ ہو تفسیر القرآن بالقرآن، جلد سوم ص۲۷ جبکہ پرویز صاحب کے ہاں ، اس کے معنی وہی ہیں جو علماء اُمت میں معروف و متداول ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’سورۂ مائدہ میں ہے ﴿ وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا﴾ (۵/۶) اس کے معنی حالت ِجنابت کے ہیں (ہم آغوشی کی رعایت سے)۔ ‘‘(لغات القرآن: ص۴۴۲) یہاں بھی تعبیر کا اختلاف واضح ہے اور دونوں گروہ الفاظِ قرآن پر متفق ہونے کے باوجود معنی ٔ قرآن پر باہم مختلف ہیں ۔ تیسری مثال قرآن کریم کی درج ذیل آیت ملاحظہ فرمائیے : ﴿ وَالَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنُ مِنْکُمْ وَيَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا وَّصِيَّةً لّاَِ زْوَاجِهِمْ مَتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاج﴾ (۲/۲۴۰) ’’تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں او رپیچھے بیویاں چھوڑ جائیں ، ان کو چاہئے کہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ سال بھر تک گھر سے نکالے بغیر ان کو خرچہ دیا جائے۔‘‘ اس آیت کا ترجمہ ’بلاغ القرآن‘ والوں کے نزدیک یہ ہے : ’’اور تم میں سے جو لوگ روک لئے جائیں (یعنی لاپتہ ہوجائیں ) اور وہ بیویاں چھوڑ جائیں ، ان کی بیویوں کے لئے حکم ہے کہ انہیں ایک سال تک ضروریاتِ زندگی مہیا کی جائیں اورانہیں ان کے گھروں سے نہ نکالا جائے۔‘‘ ترجمہ کے بعد، اب آیت کی تفسیر بھی ملاحظہ فرمائیے : ’’واضح رہے کہ لاپتہ شوہر کی بیوی، ایک سال تک شوہر کے مال سے نان و نفقہ حاصل کرے گی، لیکن اگر شوہر کا مال کوئی نہ ہو، تو شوہر کے ورثا ایک سال کا بوجھ اٹھائیں گے اور اگر وارث کوئی نہ ہو، یا وہ بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ ہوں تو اس ایک سال کا نان و نفقہ حکومت کے ذمہ ہوگا، غرض یہ کہ لاپتہ شوہر کی بیوی کے لئے ایک سال کا انتظار فرض ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن بالقرآن: جلد اوّل، ص۱۹۶ تا ۱۹۷) طلوعِ اسلام والوں کے ہاں ، آیت کا مفہوم یہ ہے : ’’تم میں سے جو لوگ بیوہ عورتیں چھوڑ کر مر جائیں ، انہیں چاہئے کہ اپنی بیویوں کے متعلق وصیت