کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 204
خون، غدود کا گوشت اور وہ جانور یا گوشت جو غیر اللہ کی طرف منسوب کیا جائے، حرام کیا گیا ہے۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں ’لحم خنزیر‘کی وضاحت بایں الفاظ کی گئی ہے : ’’لحم خنزیر کا معنی لکھا گیا ہے ’غدود کا گوشت‘ حالانکہ تمام مترجمین نے اس کا معنی ’سور کا گوشت‘ لیا ہے۔ پہلے نمبر پر سور کا گوشت مراد لینا، اس لئے غلط ہے کہ آیت مجیدہ میں اِنّما کے حصر کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مردہ، خون، لحم خنزیر اور غیر اللہ کی طرف منسوب حرام ہیں ۔ اس حصر کو قائم رکھتے ہوئے، جانوروں میں سے صرف سور ہی حرام ٹھہرتا ہے اور باقی سب جانور کتا، بلا،بجو، ریچھ وغیرہ حلال ٹھہرتے ہیں اور قرآن مجید میں نقیض پیدا ہوتی ہے کہ ایک طرف ۱/۵ میں صرف بھیمۃ الانعامحلال ٹھہرائے جاتے ہیں اور دوسری طرف صرف سور کو حرام قرار دیا گیا ہے، گویا چارپایوں میں سے صرف سور حرام ہے۔‘‘ (تفسیر القرآن بالقرآن: جلد اوّل ، ص ۱۳۶، ادارہ بلاغ القرآن، ۱۱/ این سمن آباد، لاہور) اسی آیت کا مفہوم، طلوعِ اسلام کے جناب پرویز ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں : ’’…اب سن لو! کہ خدا نے حرام کس کس چیز کو قرار دیا ہے: مردار، بہتا ہوا خون (۶/۱۴۶) خنزیر کا گوشت اور ہر وہ شئے جسے اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کردیا جائے۔‘‘ (مفہوم القرآن، ص ۶۲) لغات القرآن میں خود پرویز نے ’خنزیر‘کا معنی ’سو ٔر‘ ہی کیا ہے۔ ملاحظہ ہو لغات القرآن، ص۶۲۱۔ تعبیر کا یہ ا ختلاف ملاحظہ فرمائیے، کہ لحم خنزیر سے مراد، ایک کے ہاں ’غدود کا گوشت ‘ ہے اور دوسرے کے ہاں ’سؤر کا گوشت‘ اور دونوں خالی الذہن ہو کر سوئے قرآن آئے ہیں ، مگر نتیجہ پھر وہی ڈھاک کے تین پات !! میں نے خنزیر بمعنی غدود کی تحقیق نہیں کی، ممکن ہے کہ بلاغ القرآن کے دعویٰ کے مطابق لغاتِ عربیہ میں کہیں سے اس کی تائید ہوجائے۔ لیکن اس سے یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں اور قرآنی تشریح کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو قرآن بازیچہ اطفال بن کر رہ جائے گا، کوئی کچھ معانی کرے گا اور کوئی کچھ، اور اختلافات کا سیلابِ عظیم ہوگا اور اُمت کا فرقوں میں بٹ جانا ناگزیر ہوگا، لیکن اگر اس بات کی طرف رجوع کیا جائے جس پر خود یہ قرآن نازل ہوا ہے تو پھر یہ ممکن ہے کہ اس خطرے کا سدباب ہوجائے، کیونکہ مہبط ِوحی ہونے کی وجہ سے وہی مرضاتِ الٰہیہ کا نمائندہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمسک بالسنۃ کی وجہ سے چودہ صدیوں میں آج تک لحم خنزیر کا مفہوم متفق علیہ رہا ہے۔ دوسری مثال قرآنِ کریم میں وضو اور غسل کے ضمن میں ﴿ وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا﴾کے الفاظ آئے