کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 202
نے تشریح و توضیح کچھ بھی نہیں کی تھی، صرف ذکر پیش کیا تھا یا اس بات کے قائل ہوں کہ ماننے کے لائق صرف ذکر ہے، نہ کہ نبی کی تشریح یا اس کے قائل ہوں کہ اب ہمارے لئے صرف ’ذکر‘ ہی کافی ہے،نبی کی تشریح کی کوئی ضرورت نہیں یا اس بات کے قائل ہوں کہ اب صرف ’ذکر‘ ہی قابل اعتماد حالت میں باقی رہ گیا ہے، نبی کی تشریح یا تو باقی ہی نہیں رہی، یا باقی ہے بھی تو بھروسے کے قابل نہیں ہے۔ غرض ان چاروں باتوں میں سے، جس بات کے بھی وہ قائل ہوں ، ان کا مسلک بہرحال قرآن کی اس آیت سے ٹکراتا ہے‘‘ … ’’وہ پہلی با ت کے قائل ہوں تو اس کا معنی یہ ہے کہ نبی نے اس منشا ہی کو فوت کردیا جس کی خاطر ’ذکر‘ کو فرشتوں کے ہاتھ بھیجنے یا براہِ راست لوگوں تک پہنچا دینے کی بجائے، اسے واسطہ تبلیغ بنایا گیا۔‘‘… ’’اور اگر وہ دوسری یا تیسری بات کے قائل ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ میاں نے معاذ اللہ، یہ فضول حرکت کی ہے کہ اپنا ’ذکر‘ ایک نبی کے ذریعہ بھیجا کیونکہ نبی کی آمد کا حاصل بھی وہی ہے جو نبی کے بغیر صرف ’ذکر‘ کے مطبوعہ شکل میں نازل کرنے کا ہوسکتاتھا۔‘‘ ’’اور اگر وہ چوتھی بات کے قائل ہیں تو دراصل یہ قرآن اور نبوت محمدی، دونوں کے نسخ کا اعلان ہے جس کے بعد، اگر کوئی مسلک معقول باقی رہ جاتا ہے تو وہ صرف ان لوگوں کا مسلک ہے جو ایک نئی نبوت اور نئی وحی کے قائل ہیں ، اس لئے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید کے مقصد نزول کی تکمیل کے لئے نبی کی تشریح کو ناگزیر ٹھہرا رہا ہے او رنبی کی ضرورت ہی اس طرح ثابت کر رہا ہے کہ وہ ’ذکر‘ کے منشا کی توضیح کرے۔ اب اگر منکرین حدیث کا یہ قول صحیح ہے کہ نبی کی تشریح وتوضیح دنیا میں باقی نہیں رہی تو اس کے دو کھلے ہوئے نتیجے ہیں ، پہلا نتیجہ یہ کہ نمونہ اتباع کی حیثیت سے نبوت محمدی ختم ہوگئی اور اب ہمارا تعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اس طرح کا رہ گیا جیسا ہود، علیہ السلام صالح اور شعیب علیہم السلام کے ساتھ ہے کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں ، ان پر ایمان لاتے ہیں ، مگر ان کا کوئی اسوہ ہمارے پاس نہیں ہے جس کا ہم اتباع کریں ، یہ چیز آپ سے آپ، نئی نبوت کی ضرورت ثابت کردیتی ہے۔ صرف ایک بیوقوف ہی اس کے بعد ختم نبوت پر اصرار کرسکتا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ اکیلا قرآن، نبی کی تشریح و تبیین کے بغیر خود اپنے بھیجنے والے کے قول کے مطابق ہدایت کے لئے ناکافی ہے۔ اس لئے قرآن کے ماننے والے، خواہ کتنے ہی زور سے چیخ چیخ کر اسے بجائے خود کافی قرار دیں ، مدعی سست کی حمایت میں گواہان چست کی بات، ہرگز نہیں چل سکتی اور ایک نئی کتاب کے نزول کی ضرورت، آپ سے آپ، خود قرآن کی رو سے ثابت ہو جاتی ہے۔ قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ، اس طرح یہ لوگ حقیقت میں انکارِ حدیث کے ذریعہ دین کی جڑ کھود رہے ہیں ۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۴۳ تا ۵۴۵) تنہا قرآن کا نعرہ بلند کرنے والے، آج پاکستان میں کچھ وہ لوگ ہیں جو حلقہ ’طلوعِ اسلام‘ میں ہیں