کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 201
’’آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ جو کام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئس سال پیغمبرانہ زندگی میں سرانجام دیئے، ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوزیشن کیا تھی؟ میرا(یعنی ڈاکٹر عبدالودود کا) جواب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کرکے دکھایا، وہ ایک بشر کی حیثیت سے لیکن ’ما اَنزل اللہ‘ کے مطابق کرکے دکھا یا۔‘‘ (ترجمان القرآن، منصب ِرسالت نمبر : ستمبر ۱۹۶۱ء، ص ۵۵) خود پرویز کی تحریروں میں منصب ِنبوت کا یہ تصور موجود ہے، صر ف ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیے : ’’رسول کا فریضہ، وحی خداوندی کو دوسروں تک پہنچا دینا ہی نہیں ہوتا، وہ اس پر خود عمل کرتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ متشکل کرتا ہے جس میں وحی کی یہ تعلیم ایک عملی نظام بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کے لئے اسے سخت ترین مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بیسیوں لڑائیاں لڑنی پڑتی ہیں ۔ پھر جب یہ نظام متشکل ہوجاتا ہے تو اُسے وہ تمام امور سرانجام دینے ہوتے ہیں جو ایک مملکت کے سربراہ کے فرائض کہلاتے ہیں ۔ وہ یہ تمام اُمور ایک انسان کی حیثیت سے سرانجام دیتا ہے اور اس میں اپنے حسن تدبر اور سیرت و کردار کا ایسا مثالی نمونہ پیش کرتا ہے جسے شرفِ انسانی کی معراجِ کبریٰ کہا جائے۔‘‘ (ستمبر۷۸ء: ص ۲۶) حقیقت یہ ہے کہ ’اہل قرآن‘ کے جملہ گروہ بشمول پرویزی فرقہ، اگر قرآن کے ساتھ حامل قرآن صلی اللہ علیہ وسلم اور مہبطِوحی ا کو بھی وہی حیثیت دیں جو خود قرآن نے انہیں دے رکھی ہے تو ان پر یہ امر واضح ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو شارع (Law Giver) کا مقام بھی دیا ہے جس کا مفاد یہ ہے کہ ﴿ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالاَغْلَالَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ (۷/۱۵۷) ’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، ان کے لئے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور اُن پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے ہیں اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں ۔‘‘ منکرین حدیث اگر خود شارع بننے کی بجائے، نبی ہی کو شارع قرار دیتے اور اپنی تشریح کرنے کی بجائے نبی ہی کی تشریحات کو قبول کرتے تو وہ کبھی اس گمراہی میں نہ پڑتے، جس کا الزام طلوعِ اسلام نے دوسرے ’اہل قرآن‘ گروہوں پر عائد کیا ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی آج اسی گمراہی میں مبتلا ہے۔ سورۃ النحل کی اس آیت کے حاشیہ میں صاحب ِتفہیم القرآن نے جو کچھ لکھا ہے، وہ غور سے پڑھنے کے قابل ہے : ’’ یہ آیت جس طرح ان منکرین نبوت کی حجت کے لئے قاطع تھی جو خدا کا ’ذِکر‘ بشر کے ذریعہ آنے کو نہیں مانتے تھے، اسی طرح آج یہ ان منکرین حدیث کی حجت کے لئے بھی قاطع ہے جو نبی کی تشریح و توضیح کے بغیر صرف ’ذکر‘ کو لے لینا چاہتے ہیں ۔ وہ خود اس با ت کے قائل ہوں کہ نبی