کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 200
یہ حال ہے ان لوگوں کی اختلاف جزئیات کا، جو سنت سے ہاتھ دھو کر محض قرآن پراکتفا کرنے کے دعویدار ہیں ۔ جمعہ، جمعہ آٹھ دن، دورِ حاضر میں یہ سب گروہ کل کی پیداوار ہیں اور پرویزی فرقہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے جو قرآن کو نیزوں پر لٹکا کر منصہ شہود پر آیا ہے۔ نماز اور دیگر اُمور کی جزئیات کے اختلاف میں اس فرقہ نے نہ تو کوئی کمی کی ہے اور نہ ہی ان میں توفیق و تطبیق کے لئے کوئی حل پیش کیا ہے۔ بلکہ اپنے وجود سے اہل قرآن کے گروہوں میں ایک کا اور اضافہ کرد یا ہے۔ قرآن کی اساس پر طلوعِ اسلام کی لابی نے ازالہ اختلاف نہیں بلکہ امالہ اختلاف کیا ہے۔ یعنی ان جزئیات اور ان کے اختلاف کو کسی ’آنے والے‘ (مرکز ِملت) پر چھوڑ دیا ہے۔ غور فرمائیے کہ یہ سب لوگ، ابھی حریم قرآن میں داخل نہیں ہوئے، وہ ابھی اس کی دہلیز پر ہی ہیں کہ اس سوال نے ان میں اختلاف و انتشار پیدا کردیا کہ … ’’قرآن نے صرف کلیات و اُصول ہی بیان کئے ہیں ؟ یا ا س میں کلیات و جزئیات اور اصول و فروع سب کچھ مذکور ہیں ‘‘ … حالانکہ تَفْصِيْلَ الْکِتَابِ اور تِبْيَانًا لِکُلِّ شَيْیٍٔ جیسے قرآنی الفاظ کی یہ سب خیر سے تلاوت کرنے والے ہیں ۔ طلوعِ اسلام، اپنے سوا دیگر اہل قرآن گروہوں کی ضلالت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ’’ جب آج سے کچھ عرصہ پہلے فرقہ اہل قرآن کی اسی طرح مخالفت ہوئی ہے تو ہم نے سمجھا تھا کہ مخالفت، ان کی اس غلط روش کی بنا پر ہے جو فی الواقع غلط تھی۔ وہ اپنے غلو اور تشدد میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حیثیت ہی کو بھلا بیٹھے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب صرف اس قدر سمجھا کہ آپ نے معاذ اللہ ایک چٹھی رساں کی طرح اللہ کا پیغام بندوں تک پہنچا دیا یا آج کی اصطلاح میں یوں سمجھئے کہ ان کے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت معاذ اللہ ایک ریڈیو سیٹ (آلہ ابلاغ) کی سی ہے کہ محطۂ نشر الصوت(Broadcasting Station) میں جو کچھ نشر ہو، وہ آواز اس کے ذریعہ سننے والوں تک آپہنچی، یہ غلطی تھی۔‘‘ (جنوری ۴۲ء: ص۱۱) ٹھیک آج یہی گمراہی وابستگانِ طلوعِ اسلام نے بھی اختیار کر رکھی ہے، کیونکہ انکارِ حدیث کا یہ لازمی اور منطقی نتیجہ ہے۔ یہ لوگ بھی آج نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف اتنی حیثیت ہی دیتے ہیں کہ وہ ڈاکیا کی طرح محض قرآن پہنچا دینے کی حد تک ہی مامور من اللہ ہیں ۔ ا س کام کے بعد، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بھی کیا یا کہا ہے۔ وہ بطورِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں بلکہ بطور ایک فرد بشر کے کیا ہے۔ پیغمبر آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی اساس پر جو معاشرہ تشکیل دیا تھا، اگرچہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن ِتدبر اور سیرت و کردار کا مثالی نمونہ تھا مگر یہ سب کچھ کارنامہ رسول نہ تھا بلکہ محض فردِ بشر کی کارگزاری تھی۔ بزمِ طلوع اسلام کے ایک نمایاں فرد جناب ڈاکٹر عبدالودود صاحب (پٹھہ چوہدری غلام احمد پرویز)نے ٹھیک یہی بات ’سنت کی دستوری اہمیت‘ پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے قلمی مناظرہ کے دوران کہی تھی :