کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 199
آخر یہ لوگ، قرآن سے جزئیات کیوں متعین کرنا چاہتے تھے، ان کا دعویٰ اور دلیل کیا تھی، خود پرویز صاحب ہی لکھتے ہیں : ’’دعویٰ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے تمام احکام کی جملہ تفصیلات و جزئیات خود قرآن میں موجود ہیں ۔ اس کے لئے انہوں نے سب سے پہلے نماز کی جزئیات کو لیا۔ میں کسی لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کی اس سعی ٔ نامشکور کا نتیجہ کیا نکلا۔ اس فرقہ کے بانی تھے مولانا عبداللہ چکڑالوی (مرحوم) اور ان کے متبعین کا ایک گروہ لاہور میں مقیم ہے۔ ان دونوں نے نماز کی جزئیات اپنے دعوے کے مطابق قرآن کریم سے متعین کی ہیں اوران کی دریافت کردہ جزئیات کی کیفیت یہ ہے : مولانا چکڑالوی لاہوری فرقہ ۱۔ پانچ وقت کی نماز ۱۔ تین وقت کی نماز ۲۔ نماز میں دو تین چار رکعتیں ۲۔نماز کی صرف دو رکعتیں ۳۔ ہر رکعت میں صرف دو سجدے ۳۔ ہر رکعت میں صرف ایک سجدہ جہاں تک اذکارِ صلوۃ کا تعلق ہے، وہ بھی بالکل نرالے ہیں ، اگرچہ وہ مشتمل ہیں قرآنی آیات ہی پر۔ اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جس قرآن کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نماز کی جزئیات تک میں اس قدر اختلا ف ہے تو اسے منزل من اللہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے تو سوچئے کہ اس کا کیا جواب دیا جاسکتا ہے؟ اور اگر یہ دونوں گروہ (مقتد ِی اور مقتدیٰ) آپس میں جھگڑنے لگ جائیں اور ایک دوسرے پر الزام دھریں کہ اس نے قرآن کو صحیح نہیں سمجھا تو اس سے ایک اور اعتراض وارد ہوگا جو پہلے اعتراض سے زیادہ نہیں تو کم سنگین بھی نہیں ہوگا۔ معترض کہے گا کہ قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ کتابِ مبین (روشن کتاب) ہے اور اپنی ہر بات کونہایت وضاحت سے بیان کرتی ہے لیکن عملاً اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ اپنے حکم میں تعداد تک کو بھی غیر مبہم انداز میں بیان نہیں کرسکا، وہ جس انداز سے تعداد بتاتا ہے اس سے ایک شخص پانچ وقت سمجھتا ہے اور دوسرا تین وقت، کوئی دو تین چار رکعتیں سمجھتا ہے تو کوئی صرف دو رکعت، کوئی دو سجدے سمجھتا ہے تو کوئی ایک۔ بسیط حقائق (Abstract Realities) کے متعلق تو انسانوں کا فکری اختلاف، قابل فہم ہوتا ہے کیونکہ انہیں تشبیہی اندا زمیں بیان کیا جاتاہے، لیکن جس کتاب کا متعین احکام و قوانین کے متعلق یہ انداز ہو، اسے خداکی کتاب سمجھنا تو درکنار (معاذ اللہ) انسانی تصانیف میں بھی کوئی قابل قدر مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس سے قرآن کریم پر کتنی بڑی زَد پڑتی ہے۔ انتہائی صدمہ اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کا نام لے کر قرآن کے ساتھ کس قدر دشمنی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے خصوصیت سے ان کے نظریہ اور مسلک کی تردید کرنی پڑی ہے۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان: جلد اوّل، ص۱۳۵ تا ۱۳۶)