کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 198
نہیں ۔ قرآن کے اس دعویٰ کے بعد یہ تسلیم کرنا کہ یہ مختلف فرقوں کو ایسے قوانین دیتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف اور باہم دِگر متضاد ہیں ، قرآن کے منجانب اللہ ہونے سے انکار کے مترادف ہے اور کھلا ہوا کفر۔‘‘ (مارچ۷۸ء: ص ۴۰) ان بلند بانگ دعاویٰ کے بعد کہ وجہ ِاختلاف، قرآن نہیں بلکہ مختلف فرقوں کے اپنے مسالک وعقائد اور ان کی روایات/ احادیث ہیں ، رفع ِاختلاف کا انہوں نے یہ حل پیش کیا ہے : ’’اگر خالص قرآن کو اتھارٹی تسلیم کرلیا جائے تو کوئی اختلاف پیدا ہی نہیں ہوسکتا‘‘ (اگست۸۴ء: ص ۱۴) لیکن بارگاہِ قرآن میں آنے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے جس کے بغیر قرآن سے استہداء (ہدایت پانا) ممکن نہیں ہے : ’’قرآن سے صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خالی الذہن ہو کر اس کی طرف آئے اور اس کے ہاں سے جو کچھ ملے، اسے من و عن قبول کرے، خواہ یہ اس کے ذاتی خیالات، رجحانات، معتقدات اور معمولات کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو۔‘‘ (اگست۶۱ء: ص ۷۴) باقی مسلمانوں کو تو خیر چھوڑیئے، کم از کم ’اہل قرآن‘ کے جملہ طبقوں سے تویہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ سب احزاب اہل قرآن کے تعبیری اختلافات سے خالی الذہن ہو کر بارگاہِ قرآن میں آئیں گے اور وہ نتیجتاً وحدتِ فکر و عمل میں یکتا ہوں گے لیکن ۔ اے بسا آرزو کہ خاک شد! ایک طرف، پرویز صاحب اور ان کے متبعین اور دوسری طرف دیگر ’اہل قرآن‘ حضرات کو ہم دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ویسا ہی اختلاف و افتراق اور انتشار و شقاق نظر آتا ہے۔ چلو مان لیا کہ ’ملا‘ تو بیچارہ روایات میں اُ لجھ کر ’رستہ کھو بیٹھا‘ مگر حیرت ہے کہ یہ مسٹر لوگ بھی قرآن، قرآن کے بلند بانگ دعووں کے باوجود باہم متحد اور متفق ہونے کی بجائے ایک دوسرے کی تضلیل و تفسیق میں ہی ’مصروفِ جہاد‘ ہیں ۔ خود پرویز صاحب لکھتے ہیں : ’’بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ فرقہ اہل قرآن کا دعویٰ ہے کہ وہ خالص قرآن سے احکام متعین کرتے ہیں لیکن ان میں بھی باہمی اختلاف ہے۔ ایسا کہنے والوں کو دراصل اس کا علم نہیں کہ فرقہ اہل قرآن نے کون سی باتیں ، قرآن سے متعین کر نے کی کوشش کی اور ان میں باہمی اختلاف ہوا؟ قرآن نے جن اُمور کو اصولی طور پر بیان کیا ہے، یہ فرقہ ان کی جزئیات کو بھی قرآن سے متعین کرنے لگ گیا۔ اب ظاہر ہے کہ جو باتیں قرآن میں ہوں ہی نہ، اگر کوئی انہیں بھی قرآن سے متعین کرنے بیٹھ جائے تو ان میں اختلاف نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ جو لوگ یہ بھی قرآن سے متعین کرنا چاہیں کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں ، ان میں ا ختلاف کے سوا اور کیا ہوگا؟ فرقہ اہل قرآن کی یہی بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے وہ خود ناکام رہا اور اس کی وجہ سے قرآن بدنام ہوگیا۔‘‘ (اپریل۶۷ء: ص ۳۴)