کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 197
رہا ’منکرین ِقرآن‘کا یہ فرمان کہ احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں اختلاف نہیں ہے۔ تو یہ بھی محض ایک دعویٰ بلا دلیل ہے، حقیقت یہ ہے کہ ہر قسم کی آیات میں تعبیر اختلاف کی گنجائش ہے۔ قرآن میں جس اختلاف کی نفی کی گئی ہے، وہ مطلق اختلاف نہیں ہے بلکہ ایسا اختلاف ہے جو ناقابل توجیہ ہے۔ قابل توجیہ اختلاف تو پرویز صاحب کے مزعومہ، دونوں حصوں میں موجود ہے۔ احکام و قوانین سے متعلقہ حصہ میں تعبیرکا اختلاف تو ہمارا روز مرہ کا مشاہدہ ہے اور یہ اختلاف نیک نیتی کے باوجود بھی ہوسکتا ہے اور بدنیتی کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ البتہ پرویز صاحب جب بھی مسلمانوں میں اختلاف کا ذکرکرتے ہیں تو وہ اِن مختلف وجوہِ اختلاف کو فرقوں سے وابستہ افراد کی بدنیتی ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ، ان کے نزدیک اس اختلاف کی بہت سی وجوہ ہیں ، جو درج ذیل اقتباسات سے واضح ہیں : ’’آیاتِ قرآنی کی تعبیریں اس لئے مختلف ہوتی ہیں کہ ہر فرقہ، اس آیت کی تعبیر، اس روایت کی رُو سے کرتا ہے جسے وہ صحیح سمجھتا ہے اور چونکہ ہر فرقہ کی روایات مختلف ہیں ، اس لئے ان کی رو سے قرآنی آیات کی تعبیر میں اختلاف ہوتا ہے۔‘‘ (فروری۶۲ء: ص ۱۳) ’’تعبیرات کے اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے معتقدات اور مسلک کو اوپر رکھتا ہے اور ان کے تابع قرآن کا مفہوم متعین کرتا ہے۔‘‘ (اگست۶۲ء: ص ۱۰) ’’بات یہ ہے کہ مختلف فرقے، اپنے اپنے ہاں کے احکام کو محکم مانتے ہیں اور قرآن کو کھینچ تان کر ان کے مطابق بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ا س کا نام رکھتے ہیں ’قرآن کی تعبیرات‘ …اگر قرآن کو محکم مان لیا جائے تو اس کے احکام کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں ۔‘‘ (دسمبر۶۲ء: ص ۱۹) جہاں کسی اللہ کے بندے نے قرآن کی تعبیرات میں اختلاف کا ذکر کیا۔ منکرین حدیث کی طرف سے فوراً اس پر یہ فتویٰ رسید کردیا گیا کہ ’’تم قرآن کا اتباع کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ اتباعِ قرآن سے گریز کے لئے، تعبیراتی اختلاف کو بطورِ بہانہ کے پیش کرتے ہو۔‘‘ : ’’عام طور پر کہا جاتا ہے کہ قرآن کی بھی مختلف تعبیریں ہوسکتی ہیں ۔ اس لئے غلط اور صحیح کے پرکھنے میں ، قرآنی معیار کے نتائج میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے اعتراضات، درحقیقت قرآن کو سند و حجت تسلیم نہ کرنے کے لئے گریز کی راہیں ہیں ۔‘‘ (اگست۷۳ء: ص ۳۵) اور اگر کسی کی حق گوئی، اس پر غالب آگئی اور اس کی شامت نے اسے دھکا دے کر یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ … ’’حضور! قرآن، جس اختلاف کی نفی کرتا ہے، وہ ناقابل توجیہ اختلاف ہے، ورنہ قابل توجیہ اختلاف تو فی الواقع قرآن میں موجود ہے اور علماءِ امت کا غوروفکر ایسے اختلاف کو رفع کرتا رہا ہے۔‘‘… تو قائل کی بات کو اَن سنی کرتے ہوئے اور اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’قرآن کریم اپنے منجانب اللہ ہونے کی ایک دلیل یہ دیتا ہے کہ اس میں کوئی اختلافی بات