کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 196
’’یہ سمجھنا کہ زندگی کے عملی مسائل سے متعلق جو کچھ قرآن میں آیاہے، ا سکی متعدد تعبیریں کی جاسکتی ہیں ، قرآن کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے یا اس پر پردہ پوشی کی کوشش ہے۔‘‘ (اپریل۵۹ء: ص ۹) پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ پرویز صاحب کو ماننا پڑا کہ قرآن میں اختلاف ہے : ’’قرآنِ کریم کی تعلیم کا ایک حصہ وہ ہے جس میں ا س نے انسانی زندگی کے لئے راہنمائی دی ہے( اور یہی حصہ اس کے بنیادی مقصد سے متعلق ہے)، انہیں اُصولِ حیات یا مستقل اقدار کہا جاتا ہے۔ یہ اصول و اقدار بالکل واضح اور متعین ہیں اور ان کے سمجھنے میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہوسکتا، اُمورِ مملکت کا تعلق اسی گوشہ سے ہے… قرآنی تعلیم کا دوسرا گوشہ وہ ہے جس کا تعلق، حقائق کائنات اور مابعد الطّبعیاتی (Meta-Physics) مسائل سے ہے۔ ان حقائق کے سمجھنے کا مدار انفرادی فکر اوربہ ہیئت ِمجموعی انسانی علم کی سطح پر ہے۔ جوں جوں انسانی علم کی سطح بلند ہوتی جائے گی، یہ حقائق بے نقاب ہوتے جائیں گے اور کوئی شخص جس قدر زیادہ غور و فکر سے کام لے گا، وہ انہیں اسی قدر زیادہ عمدگی سے سمجھ سکے گا۔‘‘ (مارچ ۸۵ء: ص ۶) ’’قرآنِ کریم میں جو مابعد الطّبیعاتی مسائل آئے ہیں ، ان کے سمجھنے میں تو انسانی فکر میں اختلاف ہوسکتا ہے لیکن جن اُمور کا تعلق انسانی راہنمائی سے ہے (یہی قرآن کا بنیادی مقصد ہے)، ان میں وہ بالکل واضح اور متعین تعلیم پیش کرتا ہے، جس کی مختلف تعبیریں ہو نہیں سکتیں ۔ بشرطیکہ قرآن کو خود اس کے اپنے تجویز فرمودہ طریق سے سمجھا جائے۔‘‘ (اگست۷۳ء:ص۳۵) جواب طلب دو سوالات یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں : اوّلاً یہ کہ قرآن کریم کی آیات میں ، مابعد الطّبیعاتی مسائل سے متعلقہ آیات اور احکام و قوانین سے متعلقہ آیات میں جو تفریق کی گئی ہے اور پھر اس تفریق کی بنیاد پر ایک حصہ میں اختلاف کا موجود ہونا اور دوسرے میں معدوم ہونا جو تسلیم کیا گیا ہے، آخر اس کی قرآنی دلیل کیا ہے؟… اگر ناسخ و منسوخ کی بحث میں ، آپ کی طرف سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیت ِناسخہ کے ناسخہ ہونے کی اور آیت ِمنسوخہ کے منسوخہ ہونے کی ’قرآنی دلیل ‘کیا ہے تو یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآنی متن میں دو حصے کرنا، اور پھر ایک حصے کا حکم، دوسرے سے الگ کرنے کی قرآنی دلیل کیا ہے؟ یا یہ تقسیم بھی ویسی ہی من گھڑت ہے، جیسی یہ تقسیم کہ ’قرآن کی بعض آیات ’عبوری دور‘ سے متعلق ہیں اور بعض انتہائی اورتکمیلی دور سے… حالانکہ قرآن میں یہ تقسیم بھی کہیں مذکور نہیں ہے۔ ثانیاً، یہ کہ مابعد الطّبیعاتی حصہ قرآن کی حد تک تو آپ نے قرآن میں وجودِ اختلاف کو تسلیم کر لیا، اس طرح آپ کا یہ نظریہ﴿ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا کَثِيْرًا﴾ والی آیت سے ٹکرا نہیں جاتا؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں ؟