کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 195
کتاب وحکمت پروفیسر حافظ محمددین قاسمی ( اختلافِ تعبیر قرآن اور منکرین ِحدیث ’’اجی، چھوڑیئے، احادیث کو۔ ان میں اختلافات ہیں ، لہٰذا وہ اسلامی آئین کے لئے بنیاد اور مسائل حیات کے لئے دلیل و سند کیوں کر ہوسکتی ہیں ۔‘‘ یہ ہیں وہ الفاظ، جو اکثر و بیشتر منکرین حدیث کی زبان پر جاری و ساری رہتے ہیں ، لیکن جب اس کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایسا اختلاف تعبیر قرآن میں بھی ممکن ہے… تو یہ جواب ، ان کے لئے، سانپ کے منہ میں چھچھوندر والا معاملہ پیدا کردیتا ہے، جسے نہ ہی اُگلے بنے اور نہ ہی نگلے بنے۔ اُگلا جائے تب بھی مصیبت، اور نگلا جائے تب بھی کوفت۔ اسلم جیراجپوری صاحب نے تو بہرحال، جس طرح بھی بن پڑا، اسے اُگل کر یہ اعتراف کر لیا کہ واقعی قرآن میں اختلاف ہے، چنانچہ انہوں نے آیاتِ قرآنیہ میں ازالہ اختلاف اور رفع تضاد کے پیش نظر، اپنی کتاب ’نوادرات‘ میں ’وہم تعارض‘ کے زیر عنوان تقریباً بیس آیات میں تطبیق و توافق کی کوشش کی ہے۔ لیکن پرویز صاحب آخر تک تردّد اور تذبذب کے گردوغبار میں کھڑے ہو کر متضاد اور متناقض باتیں کرتے رہے ہیں ، کبھی قرآن میں عدمِ اختلاف کا اعلان کیا اور کبھی ’بظاہر تعارض‘کا اعتراف کرتے ہی بنی، نہ صرف اعتراف بلکہ ’رفع تعارض‘ کے لئے عملاً تطبیق کی کوشش بھی کی۔ ایک وقت تھا جب وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ قرآن کی تعلیم بڑی واضح، بین اور تضاد و تعارض سے پاک ہے۔‘‘ (مئی ۵۲، ص ۴۲) ( ’’قرآن کا یہ دعویٰ ہے کہ ﴿ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ﴾ یعنی اگر قرآن خدا کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے۔ بالفاظِ دیگر، قرآن نے اپنے من جانب اللہ ہونے کی دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ، پھر اس نے یہ بھی کہا کہ میری تعلیم صاف اور واضح ہے اس میں کوئی پیچیدگی نہیں ، ابہام نہیں ، التباس نہیں ، رَیب نہیں ، تشکیک نہیں ۔‘‘ (اپریل ۵۹ء، ص ۸) بلکہ پرویز صاحب تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ قرآن کی کسی آیت سے متعدد تعبیروں کے نکلنے کا خیال ہی، قرآن کریم کی تعلیم سے ناواقفیت کی دلیل ہے:
[1] گورنمنٹ کالج سمن آباد، فیصل آباد [2] یہ اور اسطرح کے دیگر حوالہ جات ماہنامہ طلوعِ اسلام کے ہیں ۔ مئی ۵۲ ، طلوع اسلام کا شمارہ ہے جس کا صفحہ نمبر ۴۲ ہے۔