کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 194
’’قرآن کریم تک آنے سے پیشتر ہمیں ایک بار پھر اناجیل پر غور کر لینا چاہئے، اناجیل جیسی کچھ بھی آج ہیں ، بہرحال انہی کے بیانات کو سامنے رکھا جائے گا۔ اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے؟‘‘ (شعلہ مستور:ص ۹۸) اگر ان لوگوں کے ہاں قرآن فہمی کے لئے ان اناجیل کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، جو صرف منسوخ ہی نہیں بلکہ تحریف شدہ بھی ہیں تو مسلمانوں کے ہاں صاحب ِقرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور تعلیمات کی روشنی میں قرآن مجید کو سمجھنے سے چین بجبیں ہونا غیر معقول ہے۔ دوسرے مقام پر وہ قرآنی الفاظ کو جاہلی کلام کا محتاج بناتے ہوئے رقم طراز ہیں : ’’بہرحال شعرائِ جاہلیہ کے کلام کا بیشتر حصہ اپنے اصل الفاظ میں عربی ادب کی کتابوں میں مدوّن اور محفوظ ہوگیا … اس لئے ان اشعار کی مدد سے ان الفاظ کا وہ مفہوم بھی متعین کیا جاسکتا ہے جو ان سے زمانۂ نزولِ قرآن میں لیا جاتا تھا۔‘‘ (لغات القرآن: ج۱/ ص۱۲) اگر زمانۂ جاہلیت کا کلام عربی ادب کی کتابوں میں آج تک محفوظ رہ سکتا ہے او روہ جاہلیت جسے قرآن مٹانے کے لئے نازل ہوا ہے، اس کے کلام سے قرآن کے مفاہیم متعین کئے جاسکتے ہیں تو تعلیماتِ نبویہ اور احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم آج تک محفوظ کیوں نہیں رہ سکتیں او ران سے قرآنی مطالب متعین کرنے پر اعتراض کیوں ہے۔ اگر اب بھی کسی کو اصرار ہے کہ پرویز خالی الذہن ہو کر ہی قرآن میں غوروفکر کرتے رہے ہیں تو ہمیں بتایا جائے یہ کیا ہوتا رہا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ جس قوم پر صدیوں سے سوچنا حرام ہوچکا ہو او رتقلید ِکُہن زندگی کی محمود روش قرار پاچکی ہو، ان میں فکری صلاحیتیں بہت کم باقی رہ جاتی ہیں ، لہٰذا ہمیں اس مقصد کے لئے بھی مغرب کے محققین کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا۔‘‘ (سلیم کے نام: ج۳ ص۱۵۱) بتائیے؛ کیا یہ حسبنا کتاب اللَّہ پر عمل ہوتا رہا ہے؟ کیا حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے اناجیل محرفہ اور مغرب کے محققین کے افکار قرآن فہمی کے لئے ناگزیر ہیں ؟ فرض کیا ہمارے ہاں مغربی طرز کی بعض تحقیقات نہیں ہوئیں ، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ چابک دستی سے مغربی افکار کو قرآنی آیات میں ٹانکنا شروع کردیا جائے۔اگر پرویز اور ا ن کے حواریوں کے ہاں کافرانہ افکار کے بغیر چارہ نہیں تو وہ بڑی خوشی سے انہیں اختیارکریں ، لیکن دھوکہ اور فریب سے انہیں مسلمانوں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ یہ ہیں وہ چند عقائد و نظریات جنہیں اختیار کرنے کی وجہ سے مسٹر پرویز پر ایک ہزار علما نے ان کی زندگی میں ہی ان پر کفر کا فتویٰ لگایا تھا، او رایسے باطل نظریات کے پیش نظر سعودی عرب کے مفتی اعظم اور امامِ کعبہ نے انہیں اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔