کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 192
کتاب نازل کرنے کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو منتخب فرمایا ہے اور اس کی تبیین وتوضیح کا فریضہ آپ کو تفویض کیا ہے، اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآنی آیات سے مرادِ الٰہی کو بخوبی جانتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ مفاہیم قرآن او رمطالب ِفرقان بلاریب منشاے الٰہی کے عین مطابق تھے اور آپ کا کوئی قول و فعل تقاضاے الٰہی کے خلاف نہ تھا، کیونکہ آپ کی ذات پر وحی خداوندی کا پہرہ ہر وقت موجو درہتا تھا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الاَقَاوِيلِ لَاَخَذْنَا مِنْهٗ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهٗ الْوَتِيْنَ فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْهٗ حَاجِزِيْنَ﴾ (الحاقہ: ۴۴ تا ۴۷) ’’اگر یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر اسے ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اسے دائیں ہاتھ کی محکم گرفت سے پکڑ لیتے پھر ہم اس کی رَگِ گردن کاٹ دیتے اورتم میں سے کوئی ہمیں اس سے روکنے والانہ ہوتا۔‘‘ اس قسم کی متعدد قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال وافعال اور آپ کی ہمہ تقریرات مرادِ الٰہی کے عین مطابق تھیں جن پر وحی خداوندی کی نگرانی ہر وقت موجود رہتی تھی، او ریہ امتیاز صرف صاحب ِقرآن صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی حاصل تھا۔ انسانوں میں سے کوئی شخص بھی آپ کے ساتھ اس وصف میں شامل نہیں ہے۔ اور اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ قرآنِ کریم کی تعبیر و تشریح سے متعلق اقوال وافعال …عام انسانوں کی طرح… آپ کی ذاتی آرا تھیں جن کا وحی الٰہی سے کوئی تعلق نہ تھا تو اس طرح آپ کے فرمودات کا، آپ کسی اُمتی کے قول و فعل سے کوئی فرق باقی نہیں رہتا، بلکہ بایں طور تو آپ کے زمانہ قبل از نبوت کے اقوال و افعال نیز نبوی دور کے فرامین میں بھی کوئی امتیاز باقی نہیں رہے گا ، جبکہ اس قسم کا تصور رکھنا مقامِ نبوت سے انکار کے مترادف ہے۔ پرویز قرآنی آیات کی تعبیر و تشریح کا حق مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کو دینے پر کمر بستہ ہیں او روہ اصولِ قرآن کو سمجھانے کے لئے کسی مامور من اللہ (نبی یارسول) کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے، جیسا کہ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں : ’’قرآن کے اصول مکمل غیر متبدل اور ابدی ہیں ، اس لئے اب کسی نبی کی ضرورت نہیں ۔ باقی رہا یہ تصور کہ ان اصولوں کو سمجھانے کے لئے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو خدا کی طرف سے ان اُصولوں کو سمجھنے کا علم حاصل کرے اور انہیں پھر دوسرے انسانوں کو سمجھائے تو یہ تصور یکسر غیر قرآنی ہے۔ قرآن کریم نے کہیں یہ نہیں کہا کہ میری تعلیم کو سمجھانے کے لئے بھی کسی مامور من اللَّہ یا مُلہم ربّانی کی ضرورت ہے۔‘‘ (قرآنی فیصلے: ج۳ /ص۲۶۰) ’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہا ہے کہ اس کتاب کابیان اور اس کے اُصولوں کی توضیح کی