کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 191
تعالیٰ نے ہمیں ان کے موجود ہونے اور بعض ایسے کاموں کے بارہ میں بتا دیا ہے جنہیں وہ سرانجام دیتے ہیں ، لہٰذا ہم پر فرض ہے کہ ان پر ایمان لائیں او ریہ ضروری نہیں کہ ان کی اصل حقیقت معلوم کرکے ہی ان پر ایمان لایا جائے ، بنابریں فرشتوں کے متعلق (قرآن میں ) أجنحۃ (پروں ) کا ذکر آیا ہے تو ہم اسے مانتے ہیں ، لیکن یہ نہیں کہتے کہ فرشتوں کے پر پرندوں کے پروں کے مشابہ ہیں ۔‘‘ غور فرمائیں ؛ مفتی محمد عبدہٗ رحمہ اللہ نے فرشتوں کا جو تعارف پیش کیا ہے، بالکل وہی ہے جسے اہل اسلام ہمیشہ سے تسلیم کرتے آرہے ہیں ، اوریہاں انہوں نے ملائکہ کو کائناتی قوتیں قرار دینے کے خود ساختہ نظریہ کو ذکر تک نہیں کیا، جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مفتی صاحب اپنی تفسیر میں ملائکہ سے متعلق دیگر نظریات کو ذکر کرنے کے باوجود ان کے حامی نہیں ہیں ۔ فرشتوں کے بارہ میں ان کا عقیدہ بھی وہی ہے، جو دیگر مسلمانوں کے ہاں مسلم ہے، اور جس سے خروج اختیار کرکے مسٹر پرویز اسلام کی نظریاتی سرحدوں سے ہی خارج ہوگئے ہیں ۔ (5) ایمان بالقرآن پرویزی لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسٹر پرویز قرآنِ کریم کو ایک محفوظ کتاب تسلیم کرتے ہیں جو وحی پر مشتمل ہے۔ اس حقیقت سے وہ انکار نہیں کرسکے اور اس کے اصول کو بھی وہ ابدی مانتے ہیں ۔ لیکن مسٹر پرویز چونکہ مطلبی آدمی تھے، لہٰذا انہوں نے قرآنِ کریم کو اگر وحی الٰہی تسلیم کیا ہے تو اس سے اپنا مطلب نکالنے کے لئے ہی تسلیم کیا ہے اور مستشرقین کے افکار کو قرآن کے نام سے مسلمانوں میں پھیلانے کے لئے اسے ’وحی‘ مانا ہے اور اس پر ان کا پورا لٹریچر خاص طور پر ان کی ’مفہوم القرآن‘ جیسی کتابیں شاہد ہیں ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسٹر پرویز کی پوری زندگی کی تگ و دو کا محور صرف یہ تھا کہ وہ یورپین مفکرین اور مستشرقین کے نظریات سے کشید کردہ افکار کو قرآن کے نام سے اسلامی معاشرے میں پھیلانے کے لئے سرگرم رہے اور چند حدود کے اندر کھلی آزادی کو قرآنی نظام باور کراتے رہے، وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’قرآن کریم نے صرف اُصولی احکام دیئے ہیں او ریہ چیز انسانوں ( پر چھوڑ دی ہے کہ وہ اپنے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق ان اُصولوں کی روشنی میں جزئی قوانین ایک نظام کے تابع خود مرتب کریں ۔‘‘ (لغات القرآن: ج۲/ ص۴۷۹) جبکہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کا ایمان اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم جیسی مقدس
[1] مسٹر پرویز کا یہاں ’ مسلمانوں ‘ کی بجائے ’ انسانوں ‘ کا لفظ لانا بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔