کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 184
ساری نوعِ انسانی میں گردش کرتا ہوا تمام افراد تک پہنچے تو کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو قرآنی فکر کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ، ایسی آخرت کو نظر انداز کرکے اپنی اُمت کے لئے بلکہ اپنی ازواجِ مطہرات کے لئے مفادِ عاجلہ (الحیاۃ الدنیا) کو اختیار کرسکتے تھے؟ اور کیا صاحب ِقرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل بیت کے لئے قرآنی آخرت چھوڑ کر اس کے برعکس دنیا کا سامان دینے کے لئے تیار ہوجائیں ؟ مسٹر پرویز نے قرآنی اصطلاحات کے مفاہیم کو مسخ کرنے کے لئے ایسی تحریفات کی ہیں ، جن کی زد سے خیر القرون کے اہل اسلام بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ بچ سکے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بار ے میں یہ کیسے باور کیا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کو مستقبل کا فائدہ (آخرت) چھوڑ کردنیا کا سامان دینے کے لئے آمادہ ہوجائیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’آخرت‘ کا وہ مفہوم نہیں ہے جو مسٹر پرویز نے گھڑا ہے بلکہ اس سے اُخروی زندگی مراد ہے، جسے ہر دور کے مسلمان بالاتفاق تسلیم کرتے چلے آرہے ہیں ، اور جسے امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے : ’’ويعبر بالدار الاخرة عن النشأة الثانية کما يعبر بالدار الدنيا عن النشأة الاولیٰ‘‘ (المفردات:ص۱۳) ’’ آخرت کے گھر سے مراد دوسری بار لوگوں کی تخلیق ہے، جیسا کہ ان کی پہلی بار تخلیق کو دارِ دنیا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔‘‘ پرویز اپنے قلم کی سائیڈ مارتے ہوئے میدانِ محشر میں اہل دنیا کے اجتماع سے بھی بائی پاس نکل جانا چاہتے ہیں او رلکھتے ہیں : ’’یہ تصور صحیح نہیں کہ جتنے لوگ مرتے ہیں وہ مرنے کے بعد قبروں میں روک لئے جاتے ہیں ، اور پھر ان سب کو ایک دن اکٹھا اٹھایا جائے گا، اسے حشر یا قیامت کا دن کہا جاتا ہے۔‘‘ ( جہانِ فردا: ص۱۸۰) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے انسان کی ملاقات کو جھٹلاتے ہوئے لکھتا ہے : ’’وہ (خدا ) ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے، اس لئے اس سے جدا ہوکر دنیا میں آنے اور مرنے کے بعد اس سے پھر جاکر ملنے کا تصور قرآنی نہیں ۔‘‘ (جہانِ فردا: ص۳۴) مسٹر مذکور یہاں بھی قرآنِ کریم کی صریح نص کی مخالفت کر رہے ہیں ، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو قرآن کے نام سے ہی غیر قرآنی بتلاتے ہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے صالح بندوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے ان کی حسب ذیل خوبی بیان فرماتے ہیں : ﴿ اَلَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُلَاقُوْا رَبِّهُمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ (البقرۃ:۴۶)