کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 183
نوعِ انسانی کو فائدہ پہنچاتے ہیں ، لیکن جو لوگ نوعِ انسانی کو راہِ راست سے گمراہ کرکے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں ان کی آخرت کون سی ہے؟ کیا ایسے لوگ آخرت سے دوچار نہیں ہوں گے جو کسی بھی طرح لوگوں کونقصان پہنچاتے ہیں ؟ چاہئے تو تھا کہ آخرت کی تعریف ایسی کی جاتی جونفع اور نقصان پہنچانے والے دونوں قسم کے لوگوں پر صادق آتی اور اہل شر کے انجام کو بھی شامل ہوتی، لیکن مسٹر پرویز نے ’آخرت‘کی ناقص بلکہ بھونڈی تعریف پیش کرکے اپنے جہل مرکب میں گرفتار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ پرویز کے ذہن پر چونکہ دنیاوی مفاد اور دنیاوی خوشحالیاں سوار تھیں اور وہ دنیا کے عیاش لوگوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کولتاڑا کرتے اور ان پر جہنمی ہونے کے فتوے داغا کرتے تھے، اسلئے انہوں نے ’آخرت‘ کی پہچان کرواتے ہوئے بھی اسکے مفہوم میں دنیا کے سازوسامان کو داخل کردیا ہے جیسے کہ وہ کہتا ہے : ’’سامانِ آخرت سے مقصود ہے وہ متاع جسے (انسان) آنے والی نسلوں کیلئے جمع کرتا ہے۔‘‘ (اسبابِ زوالِ امت: ص۲۶) اگر قرآن کریم آخرت کی اصطلاح کو…بقولِ پرویز… اس متاع و سامان کے لئے استعمال کرتا ہے جسے اس دنیا میں آنے والی نسلوں کے لئے جمع کیا جائے اور وہ پوری نوعِ انسانی میں گردش کرتا ہوا تمام افراد تک پہنچے تو اس نظریہ کی مخالفت کا تصور صاحب ِقرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں کیا جاسکتا اورآپ اپنی امت بلکہ اپنے اہل بیت کے لئے مستقبل کے فائدہ (یعنی آخرت) کو چھوڑ کر ان پر مفادِ عاجلہ (یعنی دنیا کا سامان) پیش نہیں کرسکتے تھے، حالانکہ قرآنِ کریم میں یہ صراحت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے بنو قریظہ اور بنو نضیر کی فتوحات کی وجہ سے مسلمانوں کے خوشحال ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نان و نفقہ بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام معاملات میں سادگی پسند تھے، ا س لئے آپ کو ان کے اس مالی مطالبے پر سخت رنج ہوا اور آپ نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی جو ایک مہینے تک جاری رہی۔ تب اللہ نے درپیش مسئلہ کے بارہ میں فیصلہ دیتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ يٰاَيُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لاِزْوَاجِکَ: إنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الْدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا، وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الاحزاب: ۲۸،۲۹) ’’یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنی بیویوں سے کہہ دو: اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں (دنیا کا) مال دے کر اچھی طرح سے رخصت کردوں ، اور اگر تم اللہ اور اس کے پیغمبر اور آخرت کے گھر کی طلبگار ہو تواللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیکوکار عورتوں کے لئے اجرعظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘ غور فرمائیے؛ اگر آخرت سے مراد وہ سامان ہو جو آنے والی نسلوں کے لئے جمع کیا جائے اور جو