کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 181
گا، جبکہ وہ جنت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لئے آخرت میں تیار کی ہے، اس میں نہ موت ہے اور نہ ہی اس میں جانے والے کوکبھی اس سے بے دخل ہی کیا جائے گا بلکہ وہ ﴿ خَالِدِيْنَ فِيْهَا﴾ کے تحت اس میں ہمیشہ رہے گا۔ جنت اور دوزخ ، دنیا میں یا آخرت میں ؟ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جنت اور دوزخ کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے، اور قرآن و سنت نیز اجماعِ امت سے یہ بات بھی مسلم ہے کہ آخرت کی زندگی قیامت قائم ہونے کے بعد شروع ہوگی اور اس وقت اس دنیا کا سارا سلسلہ درہم برہم کردیا جائے گا، اس کے برعکس پرویز کی جہنم اور جنت اس دنیا کی زندگی سے ہی تعلق رکھتی ہے، بلکہ پرویزیوں کی قیامت اور آخرت بھی اس دنیا سے ہی شروع ہوجاتی ہے، جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں : یوم القیامۃسے مراد ہوگا وہ انقلابی دور جو قرآن کی رو سے سامنے آیا تھا۔‘‘ (جہانِ فردا: ص۱۳۳) حالانکہ قرآن کی رو سے جو انقلابی دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سامنے آیا تھا، اس میں آپس کے دشمن باہمی محبت و مودّت کے رشتے میں منسلک ہوگئے تھے، اور جو پشت در پشت خون کے پیاسے تھے وہ اس انقلاب کے بعد ایک دوسرے کے غمخوار اور غمگسار بن گئے تھے، او ران میں مثالی مؤاخاۃ اور بھائی چارہ قائم ہوگیا تھا، لہٰذا ایسے دور کو ’یوم القیامہ‘ کیسے کہا جاسکتا ہے؟ حالانکہ قیامت کے دن تمام رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے اور ہرایک کو اپنی جان کی ہی فکر ہوگی، کوئی شخص کسی دوسرے کا پرسانِ حال نہیں ہوگا۔جیسا کہ قرآن کریم نے قیامت کا منظر پیش کیا ہے: ﴿ اِذْ تَبَرَأ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَأوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الاَسْبَابَ﴾ ’’اس (قیامت کے) دن پیشوا لوگ اپنے پیرؤوں سے بیزار ہوجائیں گے اور وہ عذابِ الٰہی دیکھ لیں گے اور ان کے آپس کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔‘‘ (البقرۃ:۱۶۶) یومِ قیامت کب؟:بنابریں قرآن کی رو سے سامنے آنے والے انقلابی دور کو یوم القیامۃ نہیں کہا جاسکتاجو خوشحالیوں کا مجموعہ تھا جبکہ قیامت تو بڑی آفتوں پر مشتمل ہوگی۔ بعض قرآنی آیات میں اسی روزِ قیامت کے لئے الساعۃ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، اور پرویز اپنی عادت کے مطابق اس لفظ کی بھی تحریف معنوی کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’الساعۃ‘‘ سے مراد حق و باطل کی وہ آخری جنگ ہوتی ہے جس میں باطل کی قوتیں شکست کھا کر برباد ہوجاتی ہیں ۔ (لغات القرآن، ج۲، ص۹۱۸)