کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 180
’’اور اللہ تعالیٰ ان (منافقوں اور مشرکوں ) پر غصہ ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی، اور ان کے لئے جہنم تیار کی ہے، اور وہ بہت بُری جگہ ہے۔‘‘ ان قرآنی آیات میں اس بات کی صراحت پائی جاتی ہے کہ جنت و جہنم کو تیار کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، ا س کے برعکس مسٹر پرویز کے مذکورہ اقتباس کو دیکھئے کہ وہ کیسے سینہ زوری سے قرآن کریم کی صریح آیات کی مخالفت کرتے ہیں اور جنت او رجہنم کا خالق اور ان کاتیار کرنے والا انسان کو بنانے کی کوشش میں ہیں ۔ جہنم کے حق دار کون؟ مسٹر پرویز اپنی ساری زندگی مسلمانوں کو ہی گمراہ بناتے رہے، اور اہل اسلام کے اسلاف کو سازشی قرار دیتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے جہنم کے حقدار بھی مسلمانوں کوہی بنا ڈالا جس کا اظہار کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں : ’’قرآن کریم نے جو کہا تھا کہ جہنم میں اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو اپنے جرائم کا بوجھ بھی اپنی پیٹھ پر لادے ہوں گے، اور ان لوگوں کے جرائم کا بوجھ بھی جو ان کی وجہ سے غلط راہوں پر چل نکلے تو مجھے تو اس کے مخاطب ہم مسلمان ہی دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘(نظام ربوبیت ، ص۲۶۷) مسٹر پرویز ہمیشہ اسی تگ و دو میں رہتے تھے کہ آیاتِ قرآنیہ کی وعید کو مسلمانوں پر ہی منطبق کر دیں ، اور مسلمانوں کو لوگوں کے سامنے مجرم بنا کر پیش کریں ، جیسا کہ اس مقام پر آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ دنیاوی زندگی میں کمزور ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو ہی جہنمی بنانے کے درپے ہیں ، جس کا سبب یہ ہے کہ ان کے نزدیک دنیا کی آسائشیں اور دنیاوی خوشحالیاں ہی بنیادی چیزیں ہیں جنہیں وہ جنتی زندگی سمجھتے ہیں ، لہٰذا جو شخص ان آرائشوں اور زیبائشوں سے محروم ہے، وہ اس کے نزدیک جنت کی نعمتوں سے بھی محروم ہے، اور جہنم کا حقدار بھی ہے۔ لیکن ان کا یہ نظریہ اس وقت خاک میں مل جاتاہے جب ہم قرآنِ کریم میں سابقہ قوموں کے واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں ، انہیں دنیا کی خوشحالیاں حاصل ہونے کے باوجود ان کے جرائم کی و جہ سے عذاب نازل کرکے نیست و نابود اور دنیا سے بے دخل کر دیاگیا، حالانکہ وہ دنیا کی پرویزی جنت میں مزے لے رہے تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشحال ہو اسے جنت قرار نہیں دیاجاسکتا، اس لئے مسٹر پرویز کا یہ کہنا کہ ’’آج ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح اس دنیا کی جہنم جنت سے بدل جائے۔‘‘ (لغات القرآن: ج۱/ ص۴۴۹) یہ ان کی بے فائدہ کوشش ہے کیونکہ پرویزی جنت سے موت آنے پر بہرحال بے دخل ہونا پڑے