کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 175
’’قرآن میں جہاں ’اللہ اور رسول‘کے الفاظ اکٹھے آتے ہیں ،وہاں اس سے مراد اسلامی نظامِ حکومت ہوتا ہے۔‘‘ اس سے عام قاری یہی سمجھتا ہے کہ مسٹر پرویز کے ہاں اللہ اور رسول سے اسلامی نظامِ حکومت اسی وقت مراد ہے جبکہ یہ دونوں لفظ اکٹھے آجائیں لیکن یہ الفاظ ایک دوسرے سے جدا ہو کر استعمال ہوں تو پھر شاید اس کے ہاں اللہ سے مراد ذات ِباری تعالیٰ اور رسول سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہوتی ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی کسی شخص کو اس مغالطہ کاشکار ہونا چاہئے۔ بلکہ مسٹرپرویز کے نزدیک رسول کا لفظ خواہ لفظ اللہ سے مل کر استعمال ہو یا اُس سے جدا ہو کر، بہرحال اس سے ہر دور کی ’مرکزی اتھارٹی‘ ہی مراد ہوتی ہے جیسا کہ اس نے آیت ﴿ وَاِذَا جَاءَ هُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ وَلَوْ رُدُّوْهُ اِلَی الرَّسُوْلِ وَاِلیٰ اُوْلِیْ الْاَمْرِمِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْبِطُوْنَهٗ مِنْهُمْ … ﴾ (النساء: ۸۳) کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : ’’ان کے دعوائے اطاعت کوشی کی یہ کیفیت ہے کہ جب کہیں سے امن یا خوف کی اُڑتی ہوئی سی بات سن پاتے ہیں تو اسے لے دوڑتے ہیں اور خوب پھیلاتے ہیں ۔ حالانکہ نظام سے وابستگی اور اطاعت کا تقاضا ہے کہ ایسی باتوں کو رسول (یعنی مرکزی اتھارٹی) یا اپنے افسرانِ ماتحت تک پہنچا یا جائے تاکہ وہ لوگ جو بات کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کر لیں ۔‘‘ (مفہوم القرآن، ج۱ ص۲۰۵) دیکھئے یہاں لفظ ’رسول‘ کومسٹر پرویز نے مرکزی اتھارٹی سے تعبیر کیا ہے، اس لئے کہ لفظ ’رسول‘ خواہ لفظ ’اللہ‘ سے مل کر آئے یا اُس سے جدا ہو کر، دونوں صورتوں میں مسٹر مذکور کے ہاں اس سے مرکزی اتھارٹی یا مرکز ِملت مراد ہوتا ہے۔ اس کے ہاں ان سے مراد ذات ِباری تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہرگز نہیں ہوتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے کہ غلام احمد پرویز کو اپنے داد ا رحیم بخش کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جائے یا اس سے جدا کرکے، دونوں صورتوں میں اس سے مراد وہی شخص ہوگا جو اپنی پوری زندگی فرنگی اَفکار کو قرآن کے نام پر لوگوں کے سامنے پیش کرکے ان کی عقلوں سے کھیلتا رہا، او ر امت ِمسلمہ کے اَسلاف کو سازشی قرار دے کر خود اسلام کا علمبردار اور اس کا ٹھیکے دار بنتا رہا۔ مسٹرپرویز اگر اپنی کسی کتاب میں محمد رسول اللہ کا نام نامی ذکر بھی کرتے ہیں ، تو اس کے ہاں اس سے مراد بھی وہ ذات ِرسالتما ٓب نہیں ہوتی جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوتی تھی بلکہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ریفارمر(مصلح) کی حیثیت سے لیتے ہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر من جانب اللہ وحی کے نزول کے منکر ہیں ، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں :