کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 174
لیکن پرویز نے … جو مفکر ِقرآن کے لقب سے بھی یاد کئے جاتے ہیں … ان آیاتِ قرآنیہ پر (جن میں اللہ اور رسول کے مقدس کلمات استعمال ہوئے ہیں ) رک کر کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہ کی کہ ان قرآنی آیات میں اللہ اور رسول کا لفظ مفرد استعمال ہوا ہے جس سے لامحالہ فردِ واحد ہی مراد ہوسکتا ہے جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، لہٰذا رسول کا مفرد لفظ افسرانِ مجاز کے جتھوں کے لئے کیسے استعمال ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے اب وہ اپنے خود ساختہ ’خدا و رسول‘ یعنی افرادِ حکومت کو اللہ تعالیٰ کے مبعوث کردہ رسول حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو کینسل کرنے اور منسوخ بنانے کااختیار دیتے ہوئے رقمطرازہیں : ’’اسلامی نظام) سابقہ اَدوار کے فیصلوں میں خواہ وہ رسول اللہ کے زمانے میں ہی کیوں نہ صادر ہوئے ہوں ، ردّ و بدل کرسکتا ہے اور بعض فیصلوں کو منسوخ بھی کرسکتا ہے۔‘‘ (شاہکارِ رسالت، ص۲۸۱) مسٹر پرویز کی طرف سے منصب ِرسالت پر اس ڈاکہ زنی کا مذکورہ کتاب کے نام (شاہکارِ رسالت) سے جو کھلا ہوا تضاد ہے، اس سے قطع نظر اگر… بقولِ پرویز… اسلامی نظام کی علمبردار حکومت اور اس کے افسروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے فیصلوں کو تبدیل یا منسوخ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تواس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے بلکہ بایں طور تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا آپ کے کسی اُمتی کے قول و فعل سے بھی کوئی امتیاز باقی ہیں رہتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بعض احکام کا نسخ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے ہوتا تھا۔ لیکن مسٹر پرویز کے خود ساختہ رسول (اسلامی حکومت) کا ردّوبدل اور نسخ اپنی ہوائے نفس سے ہوگا اور وحی الٰہی کے خلاف بھی۔ مسٹر پرویز کو نجانے ایسے کفریہ عقائد اپنانے اور انہیں لوگوں تک پہنچانے میں کیا لذت آتی تھی کہ وہ ان سے توبہ کرنے کی بجائے اُلٹا انہیں اپنی سب تصنیفات میں دہراتے رہتے تھے، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں : ’’قرآن میں جہاں ’اللہ اور رسول‘کے الفاظ اکٹھے آتے ہیں ، وہاں اس سے مراد اسلامی نظامِ حکومت ہے جو خدا کے احکام نافذ کرنے کے لئے متشکل ہوتا ہے۔ (قرآنی فیصلے، ج۱ ص۲۳۷) اندھی عقیدت سے بالاتر ہو کر پرویزی لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے شخص پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ مسٹر پرویز عام طور پر اپنی تالیفات میں اپنی لفاظی کا جادو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور لفظی ہیرا پھیری سے وہ عامۃ ُالناس کو اپنے جال میں پھانسنے کی تاک میں رہتے ہیں جیسا کہ وہ مذکورہ اقتباس میں اور اس جیسے دیگر مقامات میں کہا کرتے ہیں کہ