کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 172
مسٹر پرویزنے چونکہ اپنے حواریوں کو جدید مرکزی حکومت کی صورت میں اس دنیا میں ہی خدا دکھادیا تھا، اس لئے اس کے عقیدت مند اس پر بڑے خوش ہوتے اور خط و کتابت کے ذریعے وہ اپنی مسرت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ جیسا کہ ایک عقیدت مند نے تفصیلی خط لکھ کر مسٹر مذکورکے ہاں اپنی خوشی کا اظہار ان الفاظ سے کیا: ’’وہ خدا جو وہموں کے پردے میں تھا، آپ کی کتابوں کے مطالعہ سے اب وہ ظاہر ہوچکا ہے۔‘‘ (قرآنی فیصلے، ج۴ ص۱۱۰) پرویزیوں پر ظاہر ہوجانے والا خدا وہی ہے جسے یہ لوگ جدید مرکزی حکومت یا مرکز ملت سے تعبیرکرتے ہیں ، ان کے کفر و ارتداد پر اس سے بڑھ کر اور کون سی دلیل درکار ہے؟ (2) ایمان بالرسول تمام مسلمانوں کے ہاں یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ نبوت و رسالت وہبی چیز ہے، اوراللہ تعالیٰ نے جسے چاہا، اُسے اپنی وحی کے لئے منتخب فرمایا ہے۔ کوئی شخص اپنی ذاتی محنت و کاوش سے یا عبادت و ریاضت سے منصب ِنبوت و رسالت کو حاصل نہیں کرسکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے جو اس کے ذاتی اختیار پر منحصر ہے ۔ جملہ اہل اسلام کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد بے شمار انبیاءِ کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں لیکن اب نبوت ورسالت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل ہوگئی ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نبی اور رسول ہیں ، کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی یا رسول کا لقب حاصل نہیں کرسکتا۔ قرآنِ کریم کی آیت ﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْل﴾ (آلِ عمران:۱۴۴) میں کلمہ حصر اس بات پر فیصلہ کن دلیل ہے کہ رسول صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ اوراُمت میں جو شخص اسلامی نظام کے نفاذ میں انتھک محنت کرنے والا ہو یا عملاً اسے نافذ کر دینے والا ہو، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ادنیٰ اُمتی ہونے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ اس کے برعکس جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کرے یا کسی اُمتی کو رسول کا لقب دینے لگے، بلکہ وہ قرآنی آیات جو ’رسول‘ کے لفظ پر مشتمل ہیں انہیں مرکز ِحکومت پرمنطبق کرنے لگے، وہ ختم نبوت کا منکر اور مسلمانوں کے اِجماع کے مطابق وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ اب آئیں دیکھیں ،مسٹر پرویز کیسے اس منصب ِرسالت پر ڈاکے ڈالتے رہے اوراُمت کے بعض افراد کو’رسول‘ کے مقدس لقب سے نوازتے رہے۔ جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ يؤْمِنُوْنَ حَتَّیٰ يحكموکَ فيما شَجَرَبينهم﴾ کے تحت لکھتے ہیں : ’’قرآن سے فیصلہ انفرادی طور پر نہیں لیا جائے گا، بلکہ اس کے لئے ایک زندہ اور محسوس ثالث