کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 170
شخصیت ہے جو وحی کو قبول کرنے والی ہے۔ جدید مرکزی حکومت کو ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں اور اللہ و رسول میں کوئی قدرِ مشترک ہے۔ جس کی بنا پر مرکزی حکومت کو ’اللہ و رسول‘ بنا دیا جائے۔ اگر بقولِ پرویز مرکزی حکومت کو اللہ و رسول تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرکز ِحکومت وحی نازل کرنے والا ہے اور خود ہی وحی وصول کرنے والا بھی ہے۔ اگر مسٹر پرویز کی عقل کا دیوالیہ نہ نکل گیا ہوتا تو وہ ضرور سوچتے کہ جب قرآنِ کریم اور حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اُمرا اور مسلمان حکمرانوں کی بات ماننے کا حکم بصراحت موجود ہے تو اللہ و رسول کی اطاعت پر مشتمل آیات سے مرکزی حکومت کی اطاعت مراد لینے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ ٭ مسٹر پرویز اللہ و رسول سے جدید مرکز ِحکومت ہی مراد لیتے اور اپنے اسی موقف پر قائم رہتے تو ہوسکتا تھا کہ انہیں ملحد لوگوں کی دنیا میں عقلمند انسان مان لیا جاتا، مگر تعجب ہے کہ وہ اپنے اس موقف پر بھی قائم نہ رہے، اور مرکز ِحکومت کے علاوہ اللہ و رسول کی دیگر مختلف تعبیرات پیش کرکے وہ ملحد لوگوں کے نزدیک بھی عقل و متانت سے عاری ایک یا وہ گو انسان ہی سمجھے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اب وہ ’’اللہ اور رسول‘‘ کی دیگر نئی ہی تعبیریں بیان کرتے ہیں اور آیت ﴿ وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِیْ الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰهِ رِزْقُهَا﴾ ’’یعنی زمین پر کوئی چلنے والا ایسا نہیں جس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہو‘‘ کے تحت وہ ’اللہ‘ سے معاشرہ مراد لیتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ ہم نے (اس آیت میں ) اللہ سے مراد لیا ہے وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کے لئے متشکل ہو۔‘‘ (نظامِ ربوبیت از پرویز ص۱۵۸) لیکن سوال یہ ہے کہ بزعم پرویز زمین پر چلنے والوں کا رِزق تو معاشرے کے ذمہ ہوگیا، مگر اس معاشرہ کا رزق کس کے ذمہ ہوگا؟ کیونکہ دوسروں کے رزق کی ذمہ داری لینے والے معاشرے کے افراد بھی کھانے، پینے کے سامان سے مستغنی تو نہیں ہیں جنہیں رزق کی ضرورت نہ ہو۔ ٭ دوسرے مقام پر خداکو ایک قوت بتاتا ہے اور کہتا ہے : ’’قرآنی تعلیم کی بنیاد خدا کی وحدت پر ہے، یعنی اس حقیقت کے اعتراف پر کہ کائنات میں صرف ایک قوت ہے جس کااقتدار واختیار ہے۔‘‘ (لغات القرآن: ج۴/ ص۱۶۹۰) اللہ تعالیٰ قائم بالذات، واجب ُالوجود ہے، لیکن اگر کہا جائے کہ وہ ایک قوت ہے، جیسے پرویزنے کہا ہے، تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے قائم بالذات ہونے کی نفی ہوجاتی ہے کیونکہ قوت ایک عَرض ہے جو قائم بالغیر ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کو ایک قوت بنانے والاذات ِباری تعالیٰ کے وجود سے انکار کرنا چاہتا ہے، اور یہ نظریہ بھی مسٹر پرویز کا اپنا نہیں بلکہ اسے انہوں نے مستشرق میتھو آرنلڈ سے چرایا ہے جو کہتا ہے :