کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 166
وقت لکھی ہے۔‘‘ (قرآنی فیصلے از پرویز، ج۲/ ص۲۲۲) مستشرقین کے اس ہندی شاگرد نے یہاں ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کے سر وہ جھوٹ تھوپنے کی کوشش کی ہے جس کا ان کے ذہن میں پو ری زندگی تصور بھی نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے اللہ و رسول کے مقدس الفاظ کو امامِ وقت کے لئے استعمال کیا ہے، بلکہ وہ مذکورہ عبارت میں لفظ اَنْفَال کا معنی اور اس کی تفسیر و تشریح بیان کر رہے ہیں اور ان کے یہ الفاظ وأولی هذه الاقول بالصواب فی معنی الأنفال اس پر دلیل کے لئے کافی ہیں اور اَنفال کے بارہ میں وہ راجح قول یہ ذکر کر رہے ہیں کہ اس سے مراد ’’وہ اضافی مال ہے جو امامِ لشکر مجاہدین میں سے بعض یا سب کو ان کی کارکردگی کے پیش نظر دیتا ہے‘‘… لیکن ان صاحب نے اَنفال کی تشریح میں آنے والے لفظ ’امام‘ کو ’اللہ و رسول‘ کی تفسیر بنا دیا اور اِسے ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کے سر منڈھ دیا ہے، حالانکہ مفسر طبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی مذکورہ عبارت میں ’اللہ و رسول‘ کی تفسیر نقل نہیں کر رہے ، بلکہ وہ تو صرف اَنفال کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں ، اس لئے ان کے کلام کی ابتدا میں یہ لفظ آئے ہیں ’’قال أبوجعفر: اختلف أهل التاويل في معنی الأنفال‘‘ (دیکھئے تفسیر طبری: ج۶/ ص۱۶۸) یعنی ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اَنفال کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے جسے وہ بیان کر رہے ہیں ، اور اس بارے میں مختلف اقوال میں سے راجح قول کو ذکر کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک اللہ اور رسول کی مراد میں کسی مسلمان کا اختلاف ہی نہیں جسے ذکر کرنے کی انہیں ضرورت درپیش ہو، ا ور نہ ہی اللہ و رسول کامفہوم ان کے نزدیک امامِ وقت یا مرکزی حکومت ہے، لیکن یہ صاحب ان کے قول کی غلط توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’یہاں اَنفال کے معنی سے بحث نہیں ‘‘ حالانکہ امام طبری رحمۃ اللہ علیہ بحث ہی ’انفال‘ کے معنی سے کر رہے ہیں ، اللہ ورسول کا معنی تفسیر طبری میں زیر بحث ہی نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں امت ِمسلمہ کا کبھی اِختلاف ہی واقع نہیں ہوا۔ ٭ مسٹرپرویز کی مثال تو ساون کے اندھے کی سی ہے جسے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے، ا س نے اِمامِ وقت یا حکومت ِوقت کو اپنا اللہ اور خدا بنا رکھا ہے، ا س لئے جہاں کہیں اسے ’امام‘ کا لفظ نظر آجاتا ہے وہ اس کی تعبیر اللہ و رسول سے کرنے کے درپے ہوجاتا ہے، جیسا کہ وہ اب امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے کفریہ موقف کی تائید میں گھسیٹتے ہوئے لکھتا ہے: ’’امام رازی نے آیت ۳۳/۵ ﴿اِنَّمَا جَزَائُ الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ﴾ کے تحت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے: اِذا قَتَل واَخَذَ المالَ فالإمام مُخَيَّرٌ فيه بين ثلاثةِ اشياء امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’اگر باغی یا ڈاکو نے قتل بھی کیا ہے اور مال بھی لیا ہے تو ’امام‘ کو اختیار ہے کہ تینوں سزاؤں (قتل، قطع اور صلیب) میں سے جو سزا چاہے، اس کو دے۔ (قرآنی فیصلے، ج۲ ص۲۲۳)