کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 164
’’خدا کے متعلق عام تصور یہی ہے کہ وہ کائنات سے باہر، انسانی دنیا سے الگ اپنے عرشِ حکومت پر بیٹھا ہے۔ ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ہم اس کے اَحکام بجا لاتے رہیں ، اس سے وہ خوش ہوجاتا ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے تو و ہ ناراض ہو کر انسانوں کو جہنم میں ڈال دیتا ہے، یہ تصور غیر قانونی ہے۔‘‘ دیکھئے مسٹر پرویز کائنات سے الگ عرش پر مستوی ذات ِباری تعالیٰ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ وہ ایسے خدا کی تلاش میں سرگرداں ہے جو کسی تنظیم کی شکل میں کائنات کے اندر ہی موجود ہو۔ حالانکہ قرآنی نصوص سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات سے جدا ہے جسے ان دنیاوی آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا، اور ہر چیز سے بڑھ کر اس سے اور اس کی شریعت سے محبت کرنا مسلمانوں کے ایمان کا جز ہے، لیکن پرویز ایسے خدا سے محبت کو محال اور دشوار شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’جس قسم کی محبت انسانی محبوب سے کی جاتی ہے، اس قسم کی محبت خدا سے کی ہی نہیں جاسکتی، تم کسی اَن دیکھی چیز سے محبت کر ہی نہیں سکتے۔‘‘ اس سے ذرا آگے چل کر وہ لکھتے ہیں : ’’محسوسات کا خوگر انسان کسی غیر مرئی وغیر محسوس حقیقت سے محبت نہیں کرسکتا۔‘‘ (سلیم کے نام: ج۳/ ص۸۹) مسٹر پرویز کا یہ دعویٰ آیت ﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰهِ﴾(البقرہ:۱۶۵) اور اس جیسی دیگر متعدد آیات کے خلاف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا خدا مخلوقات کے اندر ہی تلاش کرنے کی کوشش میں تھے جو محسوس اور مرئی یعنی دنیا میں ہی نظر آنے والا ہو، لہٰذا وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگئے اور اس نے محسوس اور دنیا میں ہی نظر آنے والا خدا تلاش کر لیا جس کی بشارت وہ اپنے حواریوں کو دیتے ہوئے ’نظامِ ربوبیت‘ میں صفحہ۱۵۸پرلکھتے ہیں : ’’ہم اس مقام پر ایک اہم نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں ، جسے آگے بڑھنے سے پہلے سمجھ لینا ضروری ہے۔ ہم نے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرَیٰ مِنَ الْمُؤمِنِيْنَ…﴾ کی آیت میں بھی اور مذکورہ صدر آیت میں بھی ’اللہ‘ سے مراد لیا ہے ’’وہ معاشرہ جو قانونِ خداوندی کو نافذ کرنے کیلئے متشکل ہو۔‘‘ قانونِ خداوندی کا لفظ بھی پرویز صاحب کا تکیہ کلام ہے جسے وہ بکثرت اپنی کتابوں میں ذکر کرتے ہیں ، ورنہ قارئین پر یہ بات مخفی نہیں کہ وہ قانونِ فرنگی کو قانونِ خداوندی کا نام دیتے ہیں ، اور مستشرقین وملحدین کے آراء و افکار کو قرآنی آیات کے لبادے میں پیش کرتے ہیں ، اوراس ہیرا پھیری میں وہ مہارتِ تامہ رکھتے ہیں ۔ان کی اس چابک دستی کا ہم فراخدلی سے اعتراف کرتے ہیں ۔ دوسرے مقام میں وہ اسلامی حکومت کے منشور کو ’میثاقِ خداوندی‘ کا نام دیتے ہوئے اور اپنے حواریوں کو محسوس اور مرئی خدا کا مشاہدہ کرواتے ہوئے رقم طراز ہیں : (سلسبیل ،ص۱۲۲) ’’چونکہ عمال حکومت ِاسلامیہ کا عہدنامہ ان کے اور حکومت کے اقتدارِ اعلیٰ (یعنی ان کے خدا)