کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 163
وہ خدا تھا جس کے متعلق مارکس نے کہہ دیا تھا کہ اس کا تصور سرمایہ داروں کی مصلحت کوشیوں کا پیدا کردہ ہے، لیکن ’خدا‘ کے تصور کا ایک مفہوم وہ ہے جسے (بزعم پرویز) خود خدا نے متعین کیا ہے اور جو قرآن کے حروف و نقوش میں جگمگ جگمگ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس تصور کی رو سے ان مقامات پر خدا سے عملاً مفہوم، وہ نظام ہے جو ا س کے قوانین کو نافذ کرنے کے لئے متشکل ہوتا ہے اور اس طرح وہ تمام ذمہ داریاں اپنے سر پر لے لیتا ہے، جنہیں خدا نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔‘‘ (سلیم کے نام: از پرویز، ج۱ ص۲۹۹) اس عبارت پر غور کیجئے،مسٹرپرویز مارکس کی تقلید میں اندھا ہو کر کیسے خدا پر ایمان کے اسلامی مفہوم کو بے فائدہ بتا رہا ہے اور خدا پر ایمان سے مراد وہ نظام بتاتا ہے جو اس کے قوانین کا نفاذ کرے، اگرچہ قوانین خداوندی کے نفاذ سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن خدا سے مراد ہی نظام لے لینا بے دین ذہن کی اختراع ہے۔ آپ قرآنی آیت ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَیٰ الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ﴾ (سورۃ طہ: ۵) ’’رحمن جل شانہ عرش پر قائم ہے۔‘‘ کی روشنی میں غور کریں ، کیا قرآن کریم کی نصوص اس خدا کا تصور پیش کرتی ہیں جو مارکس یا مسٹر پرویز نے پیش کیا ہے؟ یا اس عقیدۂ توحید کو پیش کرتی ہیں جس کا تعارف ہم نے متذکرۃ الصدر سطور میں کروایا ہے؟ لہٰذا ایسی عبارتوں سے مسٹرپرویز کی ضلالت کھل کر سامنے آجاتی ہے اور اس سے ان کے کفر کا پردہ چاک ہوجاتا ہے اور اب وہ اپنے متبنّیٰ سلیم کو قرآن فہمی کا قانون سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’سلیم اگر تم ایک اہم نکتہ کو سمجھ لو تو قرآن فہمی میں تمہاری بہت سی مشکلات کا حل خود بخود نکل آئے گا یعنی ان مقامات میں جہاں قرآن کریم میں لفظ ’اللہ‘ استعمال ہوا ہے، ’اللہ کی جگہ اگر تم ’اللہ کا قانون‘ کہہ لیا کرو تو بات بالکل واضح ہوجائے گی۔‘‘ (سلیم کے نام: ج۱ /ص۱۷۳) بزمِ پرویز میں اگر کوئی شخص عقل سے کام لینے والا موجود ہو تو وہ ان حضرات سے پوچھے کہ جب قرآنِ کریم کے دیگر مقامات میں اللہ تعالیٰ کے قوانین اور ان کی پیروی کی اہمیت واضح الفاظ میں ذکر کردی گئی ہے تو ’اللہ‘ کے اسم گرامی کو قانون کے معنی میں لینے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا اللہ اور قانون دونوں مترادف ہیں ؟ اور اس کے باوجود اگر آپ لوگ ’اللہ‘ کو قوانین کے معنی لیتے ہیں تو یہ صرف اس لئے ہے کہ مسلمانوں کے ہاں اللہ تعالیٰ پر ایمان کے عقیدے کو مسخ کر دیا جائے اور اہل اسلام کے دلوں سے عظمت ِخدا کے تصور کو ختم کردیا جائے اور مرکزی حکومت کے قوانین کو خدا کے قوانین کا نام دے کر ان کی اہمیت کو دلوں میں راسخ کر دیا جائے۔ مسٹر پرویز اپنے مخصوص تمسخرانہ انداز میں اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں : (سلیم کے نام: پیش لفظ، ج۲ )