کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 162
بربّهٖ يستتاب فإن تاب وإلا ضُرِب عُنقُهٗ ‘‘(معرفۃ علوم الحدیث، ص۸۴) ’’ جو شخص اس بات کا اقرار نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور اس کا عرش سات آسمانوں کے اوپر ہے ،وہ کافر ہے۔ اسے کہا جائے کہ وہ اپنے بدعقیدہ سے توبہ کرے، اور اگر وہ اس سے توبہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو اس کی گردن اڑا دی جائے۔‘‘ یہ ہے وہ عقیدہ جس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ذات ِباری تعالیٰ پر ایمان ہی دراصل دین اسلام کی بنیاد ہے، جس سے انکار کرنے یا اس عقیدۂ توحیدکی تحریف کر دینے کے بعد کوئی شخص مسلمان نہیں رہ سکتا۔ پرویز کی نظر میں اﷲسے کیا مراد ہے؟ اب آئیں دیکھیں کہ مسٹر غلام احمد پرویز جو فرقہ طلوعِ اسلام کے بانیوں میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے بارہ میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ، اور کیسے وہ ساری زندگی عقیدۂ توحید کو مسخ کرنے کی کوشش میں مصروف رہے ہیں ۔ اگرچہ مسٹر پرویز اپنی تالیفات میں ’اللہ‘ یا ’خدا‘ کا لفظ بکثرت استعمال کرتے ہیں ، جس سے عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ پرویز کے نزدیک بھی تصورِ خدا وہی ہے جو اہل اسلام کے ہاں ہے۔ حالانکہ حقیقت ِحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ مسٹر پرویز کے ہاں اللہ یا خدا سے مراد وہ ذات نہیں ہے جو عرش پر مستوی ہے اور جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے، بلکہ انہوں نے عقیدۂ توحید اور ایمان باللہ کے مفہوم کو ایسا مسخ کیا ہے کہ کوئی مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا، اور اس پر ان کی تالیف کردہ کتابیں گواہ ہیں ۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب ’سلیم کے نام‘ میں اپنے متبنّیٰ ’سلیم‘ کو اللہ پر ایمان لانے کا مفہوم سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’میں نے تمہیں اپنے سابقہ خط میں بتایا تھا کہ خدا پر ایمان کے معنی یہ ہیں کہ جو معاشرہ اس کے قوانین کے مطابق قائم ہو، اسے صفات ِخداوندی کا مظہر ہونا چاہئے۔ ‘‘ (سلیم کے نام: ۱ /۲۲۵) دیکھئے مسٹر پرویز نے خدا پر ایمان کو معاشرہ پر ایمان لانے سے تعبیر کردیا، اور اِس معاشرہ پر ہی صفات ِخداوندی کو چسپاں کردیا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کامل اور بلاکیف مانی جاتی ہیں جبکہ معاشرہ اور مخلوق کی صفات ناقص ہیں اور ان کی کیفیت بھی ہمارے لئے منکشف ہے۔ مسٹر پرویز اپنی اسی کتاب کے دوسرے مقام پر اہل اسلام کے ہاں عقیدہ ٔ خدا کو ردّ کرتے ہوئے اور مارکس کے نظریۂ خدا کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’انسانوں کے خود ساختہ مذہب کے پیدا کردہ خدا پر ایمان لانے اور اس کے دعاویٰ پر توکل رکھنے سے وہ یقین کسی طرح پیدا نہیں ہوسکتا جو انسان کو احتیاج کی فکر سے بے خوف کردے۔ یہی