کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 156
افسوسناک امر یہ ہے کہ مروّ جہ تقلیدی جمود کی اس مبارک اصلاحی تحریک کے ردّ ِعمل میں انتہائی رویہ کے طور پرایک الحادی فکر نے بھی جنم لیا۔ یعنی تفریط کی صورت میں ’تقلید‘ اگر ائمہ کرام کی آرا کی غیر مشروط اطاعت کا تصور دیتی تھی تو اس الحادی تحریک نے مفرطانہ طور پر علماے اُمت کی تمام محققانہ خدمات پر خط ِتنسیخ پھیر دیا۔ شاہ ولی اللہ کی تحریک کے حاملین یعنی تقلید میں اصلاح کے علم بردار تو ائمہ کی خدمات کے معترف اور ان کی علمی تحقیقات کے قدردان ہیں ، صرف وہ ان کو نبی کی طرح معصوم قرار دینے سے گریز کرتے ہیں ۔ ان کے پیش نظر جذبہ اتباعِ سنت ائمہ کی تشریحات کے تسلسل کو ساتھ لے کر چلنے کا داعی ہے جبکہ اس دوسرے الحادی گروہ نے نہ صرف امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی استنادی حیثیت کو بلکہ ان کی احادیث تک کو مشکوک بنایا اور ان علما کی خدمات سے بھی کھلا انحراف کیا۔علومِ اسلامیہ میں تدوین و ارتقا کے تمام مراحل بیک جنبش قلم انہوں نے ختم کرکے رکھ دیئے او رکہا کہ علما کو آج تک اسلام کی سمجھ نہیں آئی، تدوین حدیث ایک عجمی سازش تھی، اور آج اسلام کی ایسی تعبیر نو کرنے کی ضرورت ہے جو علما کی کاوشوں کی آلائشوں سے پاک ہو۔ اس اعتبار سے منکرین حدیث کی یہ الحادی سوچ ہے جس کے بعد اسلام کا حلیہ بالکل مسخ ہوجاتا ہے۔ اپنے پیشرو علما پراندھا دھند اعتراضات نے انہیں بالکل ایک نئے اسلام کا داعی بنا دیا جس میں کوئی بات بھی طے شدہ نہیں ۔ پھر بات ائمہ تک نہیں رہی بلکہ صحابہ کرام تک اور پھر وہاں سے رسالت تک پہنچی اور عملاً سارا اسلام بازیچہ اطفال بن کر رہ گیا۔ اب منکرین حدیث کے جتنے گروہ ہیں ، اتنے ہی فکری انتشار کا شکا رہیں اور قرآن کے نام پر وحدت کے یہ داعی اہل قرآن خود اتنے فکری مغالَطوں کا شکار ہیں کہ ان کی اس آزادیٔ فکر نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ منکرین حدیث کے فاسد اعتقادات اور گمراہ کن نظریات کی تردید چونکہ علماءِ اسلام نے ہی کی اور انہیں علمی و فکری طور پر ان حضرات سے واسطہ پڑا، چنانچہ منکرین حدیث کا ایک مشترکہ ہتھیار یہ بھی رہا کہ علما کو وہ علماءِ سوء قرار دیتے اور ان کے پیش کردہ اسلامی اعتقادات کو وہ مضحکہ خیز قرار دیتے رہتے ہیں ۔ علما کی ناقدری اور ان کو نازیبا کلمات سے نوازنے میں بھی منکرین حدیث کی تربیت مغربی لٹریچر نے کی جس نے طویل عرصہ اپنے ہاں کی پاپائیت سے معرکہ آرا ہوکر دینی رہنماؤں کو اجتماعی معاملات سے بے دخل کردیا تھا۔صیہونی اثرات کے زیر تسلط عالمی میڈیا اپنی بھرپور قوت سے علماءِ اسلام کے خلاف سامراجی اَدوار سے سرگرم رہا ہے اور اس کی بھرپور مہم کا نتیجہ ہے کہ ’مولوی‘ اور ’ملا‘ جو کبھی علما کے لئے صیغہ افتخار تھا، اب حرفِ ملامت بن گیا اور شہروں میں کوئی بھی ایسے القاب کو اپنے لئے پسند نہیں کرتا۔ چنانچہ منکرین حدیث کے لئے میدان ہموار کرنے میں بھی ان کے سرپرست مغرب نے پرزور معاونت کی اور عملاً ان کے ہاتھوں اصلاح کی بجائے الحادی تحریک اور فکری تحریف نے جنم لیا۔ ٭ انکارِ حدیث دیگر فروعی مسائل کی طرح ایک معمولی مسئلہ نہیں بلکہ اساسیاتِ دین سے متعلق ہے۔ انکارِ حدیث کے جراثیم اگر کسی میں پختہ ہوجائیں یا وہ استخفافِ حدیث کاارتکاب شروع کردے تو اس سے منصب ِ