کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 155
رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو حافظے کی مدد سے صحابہ کرام کو پہنچایا کرتے۔ 7. اس امر کی شہادت بھی قرآن میں موجود ہے کہ قرآنِ کریم کی دنیا میں حفاظت کس طرح ہوئی: ﴿بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌُ فِیْ صُدُوْرٍ الَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْعِلْمَ وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيَاتِنَا اِلاَّ الظّٰلِمُوْنَ﴾ ’’بلکہ وہ (قرآن) تو واضح آیات ہیں جو ان لوگوں کے سینے میں محفوظ ہیں جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اور ہماری آیات سے بے انصاف لوگوں کے سوا کوئی انکار نہیں کرتا۔‘‘ (العنکبوت: ۴۹) 8. قرآن کریم کی دورِ صدیقی میں تدوین کا واقعہ خود اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت اوّلا حافظہ کے ذریعے ہوئی۔ چنانچہ جب تک حفاظِ قرآن کی بڑی تعداد موجود رہی، صحابہ کرام حفاظت ِقرآن سے مطمئن رہے۔ جب جنگ ِیمامہ میں تقریباً۷۰۰ حفاظ قرآن صحابہ کی شہادت پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حفاظت ِقرآن کی فکر دامن گیر ہوئی توانہوں نے خلیفہ اوّل کو تدوین قرآن کا مشورہ دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل جلیل القدر صحابہ کرام حفاظِ قرآن کی کثرت کی و جہ سے مطمئن تھے اور وہ حفاظت سینوں میں تھی، کتابت میں نہیں ۔ ہمارے ذہن میں کتابت والے یہ مغالطے اس لئے جنم لیتے ہیں کہ ہم اس دور کو اپنی موجودہ عادات پر قیاس کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں چونکہ معانی کے اوپر دلالت کرنے والے الفاظ کی زیادہ حفاظت مطلوب تھی، اس لئے اس کے باقاعدہ حفظ اور تلاوت کو تعبدی امر قرار دیا گیا۔ جبکہ حدیث میں اصل شے اُسوۂ رسو ل یعنی مرادِ ربانی ہے، جن کو سنت ِرسول کی روایت کرنے والے صحابہ کرام کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے[1] اسی لئے احادیث کی نسبت اور گنتی راوی صحابی کے اعتبار سے ہوتی ہے یعنی اُسوۂ رسول کی خبر دینے والا صحابی ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دورِ نبوی میں نہ صرف حدیث بلکہ قرآن بھی بین الدفتین تدوین نہ ہوا تھا بلکہ دونوں کو اوپر بیان کردہ وضاحت کی رو سے آنے والے ادوار میں احاطہ تحریر میں لایا گیا جو اس دور کے ایک سادہ، جامع اور معمول بہ طریقہ سے تھی۔منکرین حدیث کا قرآن وسنت کی تدوین پر عدمِ اعتماد والا اعتراض دراصل فن تحریر کے موجودہ ارتقا اور یورپی علوم کے طریقہ حفاظت سے مرعوب ہونے کا شاخسانہ ہے، جس میں زمانوں کے بدلتے ہوئے حالات کی رعایت نہیں رکھی گئی۔ (3) الحاد اور بے عملی فقہاءِ مذاہب کی فقہی تشریحات کو مختلف سیاسی و تمدنی وجوہات کی بنا پر پر بقول شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ چوتھی صدی ہجری کے بعد اس قدر قبولِ عام حاصل ہوا کہ ہر فرد کے لئے کسی فقہی مسلک کی مناسبت سے متعارف ہونا ضروری ٹھہرا۔ یہ تو ایک انتہاتھی جو صدیوں جاری رہی۔ ا س میں بھی اصلاح کی ضرورت تھی جس کی طرف شاہ ولی اللہ نے بطورِ خاص توجہ دی اور آزادیٔ فکر اور فقہی توسع کو برصغیر میں پھیلانے کے لئے سرگرمی سے کام کیا۔
[1] ( ہمارے بعض کم علم لوگ اسے علم رسم الخط کے اختلافات سمجھنے کی بجائے قرآن میں تحریف بنانا شروع کردیتے ہیں ۔ دوسال قبل ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ میں ایسا ہی ایک مضمون شائع ہوا جس میں فلوریڈا کے ایک پرویزی قلمکارنے مدینہ منورہ کے کنگ فہد کمپلیکس سے شائع ہونے والے قرآن کریم کے لاکھوں نسخہ جات جو ہرسال حجاجِ کرام میں تقسیم کئے جاتے ہیں ، کو تحریف ِقرآن کی ایک عظیم سازش قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے خلاف منظم ہونے کی دعوت دی ۔ لیکن یہ کم علمی او رجہالت کے سوا کچھ نہیں۔قرآن کریم کی کتابت کے اُصول آج بھی عربی زبان کی کتابت سے جابجامختلف ہیں اور ان اصولوں کو ملحوظ رکھے بغیر قرآن کو لکھنا جائز نہیں ۔ کیونکہ قرآنِ کریم کے لکھنے میں رسم عثمانی کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم عرب میں شائع ہونے والی کتب میں قرآنی آیات کی کمپوز نگ نہیں کی جاتی بلکہ اس کی کتابت ہی لگائی جاتی ہے۔یہی طریقہ زیادہ حفاظت والا اور قرآن کریم کے زیادہ لائق ہے۔ جب ان کے خیال میں قرآن کو وہی فن کتابت حفاظت مہیا کررہا ہے جو چند صدیوں بعد مدوّن ہوا تو پھر منکرین حدیث اس رسم الخط کا کیا کریں گے جو چند صدیوں بعد وجود میں آیا۔ آیا اس میں عجمی سازش کا امکان بھی وہ پید اکرلیں گے!!