کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 154
ہیں[1] یہ علم دینی مدارس بالخصوص مدارس تجوید و قراء ت میں بالتفصیل پڑھایا جاتا ہے۔ مزید برآں مختلف قراء ات میں شائع شدہ قرآنِ کریم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان مغاربہ اور مشارقہ کے طرزِ کتابت میں بھی بڑا اختلاف ہے مثلاً مغاربہ کے ہاں ’ن‘ میں نقطہ نہیں لکھا جاتا، ’ق‘ کے نیچے ایک نقطہ ہوتا ہے اور ’ف‘ بغیرنقطہ کے لکھی جاتی ہے، جبکہ اہل مشرق کا طرزِ کتابت اس سے مختلف ہے۔ 4. فن کتابت کے متحیرالعقل ارتقا کے باوجود آج بھی حافظہ زیادہ جامع ہے۔ اس کی مدد سے ایک شے کو یاد کرنا اور اسے ادا کرنا، دونوں زیادہ آسانی سے اور بہتر طور پر مکمل ہوتے ہیں ۔ قرآنِ کریم کے تلفظ اور ادائیگی کی تفصیلات کا ’فن کتابت‘ آج بھی احاطہ نہیں کرتا۔ گذشتہ برسوں میں خلیجی ممالک میں بعض ایسے مصاحف شائع ہوئے ہیں جن میں ادائیگی کے رموز مثلاً اِ خفاء و ادغام اور مد وقصر وغیرہ کو ۲۴ رنگوں سے نمایاں کیا گیا ہے۔ آج سے چند برس قبل تک اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ دیگر قراء اتِ قرآن بالخصوص روایت ِوَرش میں تحریر کئے جانے والے قرآنِ کریم میں ادائیگی کے رموز کے لئے رنگوں کا استعمال عرصہ سے متداول ہے۔ اس کے باوجود آج بھی فن کتابت میں قرآنِ کریم کی ادائیگی کی مکمل تفصیلات محفوظ نہیں ہوسکتیں ۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت تلقی واداء کے ذریعے ہوئی ہے جبکہ حدیث کی حفاظت تحمل وروایت کے ذریعے !! 5. دورِ نبوی میں آلاتِ کتابت اور کاغذ عام میسر نہ تھا۔ چنانچہ عہد ِنبوی میں قرآن اگر مکمل صورت میں موجود تھا تو وہ حفاظ ِقرآن کے سینوں میں تھا۔ کاغذ یا چمڑے پرتو قرآن متفرق اور بکھرا ہوا تھا۔ اسی لئے محققین کے نزدیک قرآنِ کریم کی آیات کی ترتیب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ آیات کی ترتیب کے بغیر ایک مسلسل مضمون نہیں مل سکتا۔جبکہ سورتوں کی ترتیب میں علما متفق نہیں ہیں ۔ جمہور محدثین کے ہاں ان ٹھیکریوں ، چوڑی ہڈیوں اور کھجور کی چھالوں پر لکھے ہوئے قرآن کو پہلے تو حفاظِ قرآن نے ہی ’صحف‘ کی شکل عہد ِصدیقی میں دی۔پھر سورتوں کی مکمل ترتیب اور خاص رسم الخط میں حضرت عثمان نے مصحف کی صورت قرآن جمع کیا۔ لہٰذا ’جامع القرآن ‘ کا لقب آج تک انہی کے لئے خاص ہے۔ 6. قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی حفظ و ادا کی صورت ملا نہ کہ بصورتِ کتابت ، جبریل امین علیہ السلام اور نبی
[1] ( ہمارے بعض کم علم لوگ اسے علم رسم الخط کے اختلافات سمجھنے کی بجائے قرآن میں تحریف بنانا شروع کردیتے ہیں ۔ دوسال قبل ماہنامہ ’طلوعِ اسلام‘ میں ایسا ہی ایک مضمون شائع ہوا جس میں فلوریڈا کے ایک پرویزی قلمکارنے مدینہ منورہ کے کنگ فہد کمپلیکس سے شائع ہونے والے قرآن کریم کے لاکھوں نسخہ جات جو ہرسال حجاجِ کرام میں تقسیم کئے جاتے ہیں ، کو تحریف ِقرآن کی ایک عظیم سازش قرار دیا اور مسلمانوں کو اس کے خلاف منظم ہونے کی دعوت دی ۔ لیکن یہ کم علمی او رجہالت کے سوا کچھ نہیں۔قرآن کریم کی کتابت کے اُصول آج بھی عربی زبان کی کتابت سے جابجامختلف ہیں اور ان اصولوں کو ملحوظ رکھے بغیر قرآن کو لکھنا جائز نہیں ۔ کیونکہ قرآنِ کریم کے لکھنے میں رسم عثمانی کی پابندی بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم عرب میں شائع ہونے والی کتب میں قرآنی آیات کی کمپوز نگ نہیں کی جاتی بلکہ اس کی کتابت ہی لگائی جاتی ہے۔یہی طریقہ زیادہ حفاظت والا اور قرآن کریم کے زیادہ لائق ہے۔ جب ان کے خیال میں قرآن کو وہی فن کتابت حفاظت مہیا کررہا ہے جو چند صدیوں بعد مدوّن ہوا تو پھر منکرین حدیث اس رسم الخط کا کیا کریں گے جو چند صدیوں بعد وجود میں آیا۔ آیا اس میں عجمی سازش کا امکان بھی وہ پید اکرلیں گے!!