کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 153
اپنے پیروکاروں کے لئے ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی شے پہلے مخاطب صحابہ کرام کے لئے تو دین کا درجہ رکھتی ہو اور بعد میں آنے والوں کے لئے اس کی کوئی دینی حیثیت نہ ہو۔ احادیث ِنبویہ کی تعمیل صحابہ کرام پر فرض تھی اور وہ اپنے نبی کے احکامات ماننے کے پابند تھے، ضروری ہے کہ ان پر لاگو شرعی احکام آگے بھی اسی حیثیت سے منتقل ہوں ۔کیونکہ اسلام تب ہی اللہ کا بھیجا ہوا دائمی آخری دین ہوسکتا ہے جب وہ قیامت تک اپنی اصل شکل اور برابر حیثیت میں سب کے لئے موجود ہو۔ دین کی حفاظت کی یہ ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے ذریعے اس طرح سادہ انداز میں پوری کرائی ہے جو ہر دور میں حفاظت کا آسان اور مروّ جہ انداز رہا ہے۔ اور اس پر عمل کرنا، اس کے تقاضے بجا لانا انسانوں کے لئے بآسانی ممکن رہا ہے۔چنانچہ ابتدا میں قرآن وحدیث کو بحفاظت آگے منتقل کرنے کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ بنیادی طور پر حافظہ پر اعتماد کا طریقہ ہے، جس کو بعد میں کتابت او ردیگر ذرائع سے بھی تقویت دی گئی ہے۔
منکرین حدیث نے یہ فرض کرلیا ہے کہ قرآن تو گویا ہمیشہ سے تحریری شکل میں محفوظ چلا آتا ہے، جبکہ حدیث کی تدوین میں زیادہ اعتماد حافظہ پر رہا ہے ، اس لئے احادیث ناقابل اعتماد ہیں ۔ جبکہ اگر معمولی غور وفکر سے بھی کام لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ موجودہ قرآن کی حفاظت بھی تحریر کی بجائے حافظہ (تلاوت وادا) ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ذیل میں ہم حافظہ اور کتابت کے تقابلی مطالعہ کے علاوہ ان دلائل کو پیش کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کی حفاظت میں بھی اصل اعتماد ’حافظہ‘اور ’ادا‘ پر رہا ہے، اور اسی سے ملتی جلتی صورتحال روایت وتعامل کی شکل میں احادیث ِنبویہ کی ہے۔حافظہ پر اعتماد کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں :
1. حافظہ انسان کی فطری بنیادی صلاحیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے، جب فن کتابت وجود میں بھی نہیں آیا تھا، انسان اپنی روز مرہ یادداشت کے لئے حافظہ پر ہی اعتماد کرتا تھا۔ عرب کا حافظہ بڑا مثالی تھا حتیٰ کہ تحریر کرنے کو عیب اور حافظہ کی کمزوری خیال کیا جاتا تھا۔
2. حافظہ کے لئے کسی آلہ یا کاغذ کی ضرورت نہیں بلکہ یہ صلاحیت ہر ذی شعور میں پائی جاتی ہے۔ دورِ نبوی میں کاغذ تو بالکل نادر، اور چمڑے وغیرہ بھی بہت کم موجود تھے۔
3. دورِ نبوی میں فن تحریر اس قدر سادہ تھا کہ آج کا حافظ ِ قرآن بھی اس دور کے لکھے قرآن کو نہیں پڑھ سکتا۔ اس میں نقاط اور حرکات جو عربی زبان میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ، کا استعمال بڑی دیر بعد شروع ہوا۔ چنانچہ دورِ نبوی کے فن کتابت میں وہ قوت نہیں تھی کہ وہ قرآن کی پوری طرح حفاظت کرسکے۔ صیغوں اور نقاط کا فرق بھی حافظے میں ہی محفوظ تھا۔تجوید (مخارج وصفات) کا لحاظ تو بالکلیہ تلاوت وادا پر ہی منحصر ہے، اسی طرح واقعات کی صحیح نشاندہی روایت کی استنادی حیثیت کی مرہونِ منت ہے۔
عالم عرب اور برصغیر دونوں میں رسم عثمانی میں ہی شائع ہونے والے قرآن کے رموز و علامات میں آج بھی اتنا فرق ہے کہ حفاظِ قرآن کے علاوہ دیگر پاکستانی مسلمان عربی رسم الخط میں چھپے قرآن کریم سے تلاوت میں مشکل محسوس کرتے ہیں کیونکہ دونوں میں علامات اور کلمات لکھنے میں اختلاف پایا جاتاہے۔ قرآن کریم کا رسم الخط ایک باقاعدہ فن ہے جس میں بعض اُمور پر علما میں بھی اختلافات موجود