کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 152
اور دانشوروں کے اسلوبِ استدلال کے تقابلی مطالعہ سے بخوبی ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی جب سے جدید علم وفن نے اپنا سکہ جمایا ہے اور ذہنوں نے اہل مغرب کی فکری غلامی قبول کی ہے، تب سے نہ صرف ہمارا عام بلکہ مقبول دینی لٹریچربھی اسی کی مثال پیش کرتا ہے۔ پڑھے لکھے طبقوں میں قرآن و حدیث کی بجائے عقلی و منطقی معروضات زیادہ مقبول ہیں ۔ اسی تعقل پسندی کا شاخسانہ انکارِ حدیث بھی ہے۔ اگر عقل انسانی پر بے جا اعتماد ہوجائے تو وہ حدیث ِنبوی کو بھی چیلنج کرنے لگتی ہے اور مغربی علوم و فنون کے ارتقا اور ان کی عقل پسندی کا نقصان دہ پہلوہے کہ ہمارے ہاں بھی ان کے خوشہ چین طبقے نے اس طرزِ فکر کو فروغ دیا ہے اور احادیث کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کردیا ہے۔ یورپ کو یہ عقل پسندی گوارا ہوسکتی تھی کہ انکے ہاں الہامی ہدایات نہ صرف تحریف شدہ ہیں بلکہ بنیادی طور پر بھی اس قابل نہیں کہ موجودہ دور میں قابل عمل ہوں چنانچہ محرف الہامی تعلیمات پر ایمان لانے کی بجائے وہ اپنی رائے وعقل پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اسلام نہ صرف ایک مکمل اورحتمی دین ہے بلکہ تحقیق وتدوین کے اعلیٰ معیاروں پر بھی محفوظ ہے۔اسلئے مسلمانوں کو عقلی برتری پر مبنی رجحانات زیب نہیں دیتے۔
(2) تدوین حدیث
منکرین حدیث میں کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو احادیث کو اس شرط پر قبول کرتے ہیں کہ وہ انسانی عقل کے مطابق ہوں ۔ جبکہ بعض منکرین حدیث ایسے ہیں جو احادیث کی تدوین پر عدمِ اعتماد کی وجہ سے کلی طور پر احادیث ِنبوی کو قبول نہیں کرتے۔قرآن جو حدیث کی بنسبت اعلیٰ معیار پر محفوظ ہے، وہ دونوں کی استنادی تحقیق میں بنیادی فرق ملحوظ رکھے بغیر دونوں کے لئے یکساں اسلوب اور مساوی درجہ حفاظت کا تقاضا کرتے ہیں ۔حالانکہ قرآن کلام الٰہی ہونے کی حیثیت سے الفاظ کی حفاظت کا اسلوب چاہتا ہے جبکہ حدیث مرادِ الٰہی ہونے کے ناطے مفہوم کی حفاظت کے اصولوں پر روایت وتدوین ہوتی ہے۔
اسی طرح منکرین حدیث موجودہ حالات پر قیاس کرتے ہوئے صحیح تجزیہ کئے بغیر برسوں قبل کے حالات کو اپنے دور کے اندازوں کے مطابق پرکھنا چاہتے ہیں ۔ انسان کی محدود عقل و فراست میں یہ صلاحیت بڑی نادر ہے کہ وہ حالات کے معروضی فرق کو ملحوظ رکھ کر ہر دور کے تقاضوں اور اس کے مسلمات کو سمجھ سکے۔ جس طرح ہمارے مغرب گزیدہ مفکرین نے اسلام کے اسلوبِ استدلال کو ملحوظ نہ رکھ کر اور دونوں کے معروضی حالات کا فرق نہ کرکے جدید علم الکلام کو اپنایا اور اس کو ترقی یافتہ قرار دیا جو کہ دراصل جذبہ ایمان و ایقان کی کمزوری کا مظہر ہے، اسی طرح دورِ نبوت میں حفاظت کے تقاضوں کو آج کے دور کے حفاظت کے تقاضوں سے پرکھنا بھی ایسی ہی بڑی غلطی ہے۔ موجودہ دور میں اگر کتابت کو حفاظت کا معتمد ذریعہ مانا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیشہ سے کتابت ہی معتمد اور مستند ترین ذریعہ چلا آرہا ہو۔بلکہ شاید بہت جلد انفرمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اب کتابت وتدوین بھی اپنی موجودہ حیثیت برقرار نہ رکھ سکے۔
اسلام کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے، نبی آخرالزمان پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا تو ضروری تھا کہ قیامت تک ایک مکمل دین انسانوں کے لئے محفوظ ترین صورت میں موجود ہو۔ اسی طرح اسلام کے احکام