کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 151
ریشنل ازم (Rationalism) مذہب کے بگڑے ہوئے تصور ’اندھے ایمان‘ (Blind Faith) کے ردّ عمل میں ایک باقاعدہ تحریک کے طور پر یورپ میں سرگرم ہوا اور اس کے قوی اثرات مسلسل چلے آرہے ہیں ۔ انسان کو اپنی عقل اور توجیہ پسندی پر ہمیشہ سے بڑا اعتماد رہا ہے اور اس عقل کے استعمال سے اگر اسے کچھ کامیابی حاصل ہو جائے تو پھر وہ ’عقل پرستی‘ تک پہنچا دیتی ہے۔
انکارِ حدیث کا فتنہ بھی چونکہ مغرب کی علمی مرعوبیت کا شاخسانہ ہے، اسلئے یہاں بھی عقل پسندی کے گہرے رحجانات پائے جاتے ہیں ۔ اکثر منکرین حدیث نے احادیث کو تسلیم کرنے میں عقلی حجت بازیاں کی ہیں اور حدیث کی صحت جانچنے کیلئے یہ اُصول متعارف کرایا ہے کہ وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عقل انسانی کو اپیل کرتی ہیں ۔
مغرب نے احیاءِ علوم کی تحریک کے بعد جہاں علمی و فنی میدان میں پیش رفت کی ہے، وہاں فن استدلال کو بھی سائنسی خطوط پر استوار کیا ہے جس میں یہی عقل پرستی شدت سے کارفرما ہے۔ تحقیق کا سائنسی اُسلوب اسے قرار دیا جاتا ہے جو اعداد و شمار، عقل و منطق اور معروضیت کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ اس اسلوبِ تحقیق میں اُمورِ غیبیہ، مذہب اور الہامی تصورات کو کوئی وزن نہیں دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ وحی کی بنیاد پر کی جانے والی تحقیق کو مغرب میں باضابطہ اور مستند تحقیق شمار نہیں کیا جاتا۔
اس لحاظ سے ایک مسلمان اور غیر مسلم کے زاویۂ فکر و نظر اور اسلوبِ استدلال میں بڑا نمایاں فرق ہے۔ اسلام میں عقل کو استعمال کرنے، اس پر اعتماد کرنے اور اس کی نشوونما کرنے کی بڑی ترغیب ملتی ہے لیکن اس کی بعض کوتاہ حدود کا اعتراف بھی موجود ہے۔ ایک مسلمان عقل پر بے جا اعتماد کرنے کی بجائے اپنی عقل کو خالق کائنات کی رہنمائی میں چلانے کا پابند ہے اور وہ اپنی عقل کو اس حد تک آزاد نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے خالق اور اس کی ہدایات پربھی اعتراضات کرنا شروع کردے۔ کیونکہ بہت سے دائرے ایسے ہیں جہاں انسانی عقل بے بس ہوجاتی ہے اور سائنس ومنطق بھی قاصرنظر آتی ہے۔
وحی کی تشریح میں عقل وبصیرت کو استعمال کرنا اسلام کامطلوب ہے جبکہ وحی پر اعتراض کے میدان میں عقل کو کھڑا کرنا عقل کے ساتھ ظلم اور اپنے خالق کی ہدایات کے ساتھ ناانصافی ہے۔عقل سے وحی یعنی اسلام کوسمجھنے کی کوشش تو قابل تعریف ہے لیکن عقل سے اسلامی تعلیمات کو گھڑا نہیں جاسکتا۔
موجودہ دور کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ اُسلوبِ استدلال کی تبدیلی کا ہے۔ اسلام میں استدلال کا اسلوب تو یہ ہے کہ جہاں فرمانِ الٰہی یا حدیث ِنبوی آجائے تو اس کی استنادی حیثیت کی توثیق کرنے کے بعد اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیا جائے۔ عقلی توجیہات، معروضی تک بندیاں اور منطقی صغرے کبرے مزید تائید کے لئے ہیں جو اطمینانِ قلبی کا موجب ہوتے ہیں ، اسلام ان کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام میں کسوٹی بننے کا مقام بنیادی طور پر وحی الٰہی کو ہی حاصل ہے۔
جبکہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جدید علم الکلام کی رو سے استدلال کی بنیاد صرف عقلی توجیہات کو بناتے ہیں اور آخر میں تائید کی غرض سے حدیث ِنبوی یا آیت ِقرآنی بھی لے آتے ہیں ۔ اس طرزِ استدلال کی نشاندہی علما