کتاب: محدث شمارہ 263 - صفحہ 150
کتاب: محدث شمارہ 263
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر و نظر حافظ حسن مدنی
فتنۂ انکارِ حدیث
برصغیر میں انکارِ حدیث کا فتنہ چند صدیوں سے زوروں پر ہے۔ اس کی بعض صورتیں ایسے صریح انکارِ حدیث پر مبنی ہیں جس کے حامل کا مسلمان رہنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ جبکہ استخفاف حدیث جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں اکثر وبیشتر پایا جاتا ہے۔ مرض ایک ہی ہے اگرچہ اس کی علامات مختلف صورتوں میں سامنے آتی ہیں ۔
اس فتنہ کے بنیادی اسباب میں دین سے لاعلمی، غیرمسلم تہذیب سے مرعوبیت اور سیاسی و فکری محکومی سرفہرست ہیں ۔ یہ پڑھے لکھے تجدد پسندحضرات کا فتنہ ہے، جو علومِ اسلامیہ سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اسلام اور اس کے اوامرو نواہی سے جذباتی عقیدت رکھتے ہیں ، نہ ان کا جذبہ ایمانی کوئی قابل رشک ہوتا ہے۔ برصغیر میں مغرب کی فکری بالا دستی اس فتنہ کا بنیادی محرک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ۷،۸ سو سال اسلامی حکومت رہنے کے باوجود انکارِ حدیث کی ابتدا اس دور میں ہوئی جو انگریز کی غلامی کا دور ہے۔ برصغیر میں اس فتنہ کی ابتدا سرسیداحمد خان نے کی جو مسلمانانِ برصغیر کو انگریز کی محکومیت اور فکری مرعوبیت تسلیم کرانے والے پہلے نمایاں فرد تھے۔ چند دہائیاں قبل فتنہ انکارِ حدیث کا مرکزی کردار جس شخص نے ادا کیا، وہ غلام احمد پرویز تھا جو انگریزی حکومت کاملازم اور فکری طور پر ان کی علمی برتری کا قائل تھا۔موجود دور میں بھی انکارِ حدیث کی زمامِ کار جن کے ہاتھوں میں ہے، ان میں اکثر انگریزی علوم و فنون کے پروردہ ہیں ، ان کی ذ ہنی ساخت میں یورپ کی علمی رِفعت رچی ہوئی ہے۔
عالم عرب میں بھی جہاں جہاں اسلام کو فکری سطح پر یورپ سے واسطہ پڑا، وہاں اس فتنہ نے پرپرزے نکالے۔ چنانچہ برصغیر کے بعد مصر اس فتنہ کا زیادہ شکار ہوا جہاں اس کی تردید کے لئے زبردست لٹریچر بھی وجود میں آیا، اسکے بعد شام و بیروت کے مفکرین میں انکارِ حدیث کے جراثیم نے نشوونما پائی۔ خلیجی ممالک ایسی علمی اور فکری کشمکش سے دوچار نہیں ہوئے، وہاں اس کا زہر بھی بہت زیادہ نہیں پھیلا۔
صدرِ اسلام میں یہ فتنہ معتزلہ میں شروع ہوا۔ اوراسوقت اس کی وجہ یونانی فلسفہ سے مرعوبیت تھی۔ محدثین کی زبردست کوششوں سے اس فتنہ کا استیصال ہوا۔ اس کے بعدتیرہویں صدی ہجری میں یورپ کی یلغارکے بعد انکارِ حدیث کے جراثیم نے دوبارہ جنم لیا۔اس سلسلہ میں مستشرقین کی کوششیں بھی شامل ہیں اور اکثر منکرین حدیث انہی کے افکار کے خوشہ چین ہیں ۔ منکرین حدیث کے بعض مشترک افکار پر مختصر تبصرہ پیش خدمت ہے :
(1) عقل پرستی
یورپ کا موجودہ ارتقا، اُن کی نظر میں ان کی ذہانت، معروضیت اور عقل پسندی کا مرہونِ منت ہے۔