کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 9
بنچ نے بھی اپنے فیصلے میں اس رپورٹ پر انحصار کیا ہے۔ اس طرح فیصلے کے آداب و مقاصد کی نفی کا ارتکاب کیا گیا ۔ ۶) شریعت اپلیٹ بنچ نے فیصلہ کرتے ہوئے صرف ایک مخصوص نقطہ نظر کے ماہرین اور سکالرز کی آرا کو اہمیت دی ہے۔ ان میں زیادہ تر وہی ہیں جن کا حوالہ جسٹس تنزیل الرحمن نے اپنے فیصلے میں دیاتھا۔ لیکن شیخ محمد عبدہ، شیخ راشد رضا، عبدالرزاق سنہوری، محمود شلتوت سابق شیخ الازہر قاہرہ اور موجودہ شیخ الازہر ڈاکٹر محمد سعید طنطاوی جیسے ممتاز فقہا کی آرا کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ۷) شریعت اپلیٹ بنچ نے اپنے فیصلے میں سود کو ختم کرنے کا جو متبادل اقتصادی نظام تجویز کیا ہے، وہ ناقابل عمل ہے اور حکومت کے مطابق اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اسے نافذ کیا جاسکے۔ ۸) وفاقی شرعی عدالت نے ربوٰ الفضل کے سوال اور اس کے نفاذ کے معاملہ کو ویسے ہی چھوڑ دیا اور اس کے اثرات کو نظر انداز کردیا تھا۔ شریعت اپلیٹ بنچ بھی اس امر کا نوٹس لینے میں ناکام رہی ہے۔ ۹) شریعت اپلیٹ بنچ نے قرض کے معاہدات پر مال کی واپسی کے وقت بڑھوتری کو سود قرار دیا ہے جبکہ امام رازی کی مشہور تفسیر الکبیر میں درج ہے کہ ربوٰ کا معنی بڑھوتری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر طرح کی بڑھوتری کی وصولی ربوٰ کے زمرے میں آتی ہے یعنی غیر قانونی ہے۔ ۱۰) جس ربوٰ کو اسلام میں ممنوع قراردیا گیا ہے، وہ قرض کے وہ معاہدات ہیں جنہیں عربی میں ربوٰ النسیۂ کہا جاتا ہے۔ ان معاہدات میں قرض کی رقم بروقت ادا نہ کرنے پر بڑھوتری طے کی جاتی تھی ۔ ۱۱) شریعت اپلیٹ بنچ نے وفاقی شرعی عدالت کے برعکس ربوٰ الفضل پرنہ صرف بحث کی ہے بلکہ اس کی ۳ مختلف اقسام بھی گنوائی ہیں اور قرار دیا ہے کہ ربوٰ القرآن اور ربوٰ الفضل کی پہلی قسم موجودہ اور جدید تجارت کے اُصولوں کے نزدیک تر ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے چونکہ اس ایشو پر کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، ا س لئے شریعت اپلیٹ بنچ کا اس ضمن میں دیا گیا فیصلہ ضابطہ کے خلاف ہے۔ ۱۲) تمام رائج الوقت اسلامی بینکنگ سسٹم اس بات پر متفق ہیں کہ شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ Misnomer (نام کی غلطی) ہے اور مشارکہ کے علاوہ جو بھی معاشی طریقے اس میں تجویز کئے گئے ہیں ، وہ ماسوائے حیلہ کاری کے، اور کچھ نہیں ہیں ۔ مزید یہ کہ اگر ان طریقوں پرعمل کیا جائے تو اس سے سرمایہ لگانے والے فریق پر دباؤ زیادہ بڑھ جائے گا۔ یعنی اس میں ’ظلم‘ کا عنصر بھی شامل ہوجائے گا لہٰذا موجودہ سودی نظام سے بھی بدتر صورتِ حال پیدا ہوجائے گی۔ ۱۳) شریعت اپلیٹ بنچ اس امر کا ادراک کرنے میں بھی ناکام رہا کہ وہ جو متبادل اقتصادی نظام تجویز کر