کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 8
رہنمائی کے لئے ۵۳ اسلامی ممالک سے رابطہ کیا اور ایران اور سوڈان کے بینکنگ سسٹم کا جائزہ لیا لیکن تمام ممالک نے بلا تخصیص یہی مشورہ دیا کہ سود سے پاک بینکنگ نظام کا قیام ناقابل عمل ہے بلکہ یہ کہ یہ معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا، اس طرح ہم بین الاقوامی برادری سے کٹ جائیں گے اور ہمارا زندہ رہنا مشکل ہوجائے گا۔ اس مرحلے پر اپنی بحث کو سمیٹتے ہوئے رضا کاظم ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس مسئلے کے کچھ مزید پہلوؤں پر میرے ساتھی وکیل ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی بھی عدالت کے سامنے اپنی معروضات پیش کریں گے۔
3۔ ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے اپنے دلائل کا آغاز سنسنی خیز، ڈرامائی انداز میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ سود کے کیس میں فیصلے کرتے ہوئے سابقہ بنچ نے قرآن اور سنت کے متعدد احکامات سے انحراف کیاہے ۔ زیر بحث فیصلے میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ اور فقہا رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کومسخ کرکے قرآن و سنت کے واضح احکامات سے روگردانی کی گئی ہے۔ جبکہ بہت سے مکاتب ِفکر کے علما کی رائے کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیربحث فیصلے میں پاکستان کے سب شہریوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔
ڈاکٹر ریاض الحسن گیلانی نے اپنی طویل بحث کے دوران شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے پرجو اعتراضات اٹھائے ان کا خلاصہ حسب ِذیل ہے:
۱) متنازعہ فیصلے میں سود سے متعلق قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کو گڈ مڈ کردیا گیا ہے۔ ان دونوں پہلوؤں کی الگ الگ تشخیص میں ناکامی کے باعث پورا فیصلہ قرآنِ حکیم کے بتائے ہوئے اسلامی اصولوں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہا کی رائے سے متصادم ہوتا چلا گیا ہے۔
۲) ربوٰ کی مکروہ اقسام کو حکومتی اداروں کے ذریعے نافذ العمل کرنا سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔
۳) مکروہ اور حرام ربوٰ کو سود کی تعریف میں یکجا کردیا گیا ہے جوعدالت کے اختیار میں نہیں ہے۔
۴) عدالت نے ربوٰ کی تعریف متعین کرتے ہوئے جو طریقہ اپنایا ہے، وہ تفسیر کے اُصولوں کے خلاف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کی بہت سی روایات کو سود کی تعریف متعین کرتے ہوئے نظر انداز کردیا گیا ہے۔
۵) سود کا فیصلہ دیتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیونکہ مسٹر جسٹس تنزیل الرحمن نے بطورِ جج وفاقی شرعی عدالت سود کو حرام قرار دیتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کی ایک رپورٹ پر بھی انحصار کیا ہے۔ یہ رپورٹ خود ان کی زیر نگرانی تیار ہوئی تھی۔ کیونکہ جب یہ رپورٹ مرتب ہوئی، ڈاکٹر تنزیل الرحمن خود اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے۔ شریعت اپلیٹ