کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 7
رہی۔ اگر ایک متوازی نظام قائم کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اسے موجودہ نظام کے ساتھ منسلک کیا جاسکتا ہے۔ رضا کاظم نے عدالت کے اختیارِ سماعت سے متعلق آئینی نکات بھی اٹھائے اور موقف اختیا رکیا کہ وفاقی شرعی عدالت کو آئین کے باب ’۳‘ کے تحت سود سے متعلق معاملے کو سماعت ہی نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آئین میں ربوٰ کے خاتمے کے لئے الگ سے شق موجودہے اور اس معاملے کو طے کرنے کے لئے اقدامات کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ پھر اس نکتے کودوبارہ اٹھانے یا الگ سے انتظامات کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور نہ ہی معاملہ عدالت کے دائرۂ اختیار میں باقی رہتا ہے۔ یہی ملک، قوم اور عدلیہ کے بہتر مفاد میں ہے۔
رضا کاظم نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۸ کے تحت مشروط طور پر ربوٰ کی اجازت دی گئی ہے جبکہ زیر بحث فیصلے میں اس آرٹیکل کونظر انداز کیا گیا ہے۔ دراصل وفاقی شرعی عدالت کو آئین میں طے شدہ معاملات یا آئین سے متصادم کسی معاملے کی سماعت کا اختیار ہی حاصل نہیں ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سے سنگین نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے، اس لئے فاضل عدالت ملک کو تباہی سے بچائے۔ اگر رائج الوقت سودی نظام بند کردیا گیا تو ملک کا معاشی ڈھانچہ منہدم ہوجائے گا جس کا لازمی نتیجہ پاکستان کی تباہی کی صورت میں سامنے آئے گا۔
رضا کاظم ایڈووکیٹ نے شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے پرنکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آرٹیکل ۲۰۳ ڈی، کے تحت صرف اس قدر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کسی موجود قانون کے قرآن و سنت کے خلاف ہونے یا نہ ہونے سے متعلق فیصلہ کرے لیکن فاضل بنچ نے سود کو حرام قرار دینے کے ساتھ ساتھ حکومت اور متعلقہ اداروں کو اپنے فیصلہ پر عمل درآمد کے لئے ہدایات جاری کردیں ، جس کا اختیار فاضل عدالت کو حاصل نہیں تھا۔ اس طرح شریعت اپلیٹ بنچ کا فیصلہ اپنی قانونی حدود سے باہر سفر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ غیر قانونی پہلو بھی فیصلے پر نظرثانی کا متقاضی ہے۔
رضا کاظم نے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بنکوں میں جمع رقوم کا ساٹھفیصدی غریب عوام کی جمع پونجی پر مشتمل ہے جو اِن رقوم پرحاصل ہونے والے منافع سے اپنی ماہانہ گزر اوقات کرتے اور اخراجات چلاتے ہیں ۔ اگر اس سسٹم کو تبدیل کردیا گیا اور غریب عوام کو اپنی رقم ڈوبنے کے تذبذب میں ڈال دیا گیا تو قومی معیشت میں زَر کی آمد بالکل رُک جائے گی لہٰذا ملک ایک عظیم مالی بحران سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلے پر نظرثانی کا جواز موجود ہے۔
کاظم رضا ایڈووکیٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حکومت نے غیر سودی نظام نافذ کرنے کے سلسلے میں