کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 6
اور جسٹس ڈاکٹر رشید احمد جالندھری شامل تھے۔
1۔نظرثانی کی اس درخواست پر سب سے پہلے یونائٹیڈ بنک کے وکیل راجہ محمد اکرم نے ۱۲/ جون ۲۰۰۲ء کو بحث کا آغاز کیا۔ راجہ اکرم نے موقف اختیار کیا کہ قرآنِ کریم میں ’بیع‘ سے مراد تجارت، سرمایہ کاری، کاروبار اور سوداکاری ہے۔ بیع سے مراد ’صرف‘ نہیں ہے جیساکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے استدلال کیا کہ قرآنِ کریم نے ربوٰ کو حرام قرار دیا ہے لیکن ’بیع‘کو جائز کہہ کر اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اور جدید بینکنگ کا نظام بیع کے وسیع مفہوم پر پورا اُترتا ہے۔ اس لئے بنکاری کے ذریعے لین دین کو ، ربوٰ قرار دے کر ممنوع کردینا درست نہیں ہے۔
راجہ محمد اکرم نے کہا کہ ’مشارکہ‘ کی اصطلاح حصہ داری (پارٹنر شپ) کا مفہوم ادا کرتی ہے۔ اس لئے قرض کی وہ رقم جو کاروبار میں لگائی گئی ہو، اس پرمنافع لینا بھی بیع کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح فکسڈ ڈیپازٹ پرمنافع حاصل کرنا بھی بیع ہی کی تعریف میں آئے گا کیونکہ فکسڈ ڈیپازٹ کی رقم بھی کاروبار میں لگائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے کاروباروں کی طرح بنک اور مالیاتی ادارے نفع کے ساتھ ساتھ نقصان میں بھی جاتے رہے ہیں اور وہ دیوالیہ بھی ہوجاتے ہیں لہٰذا دونوں صورتیں پیش آتی رہتی ہیں جوکہ اسلام کے جائز اصولِ تجارت کے عین مطابق ہے۔
راجہ محمد اکرم نے کچھ قرآنی آیات کی تفسیربھی پیش کی۔ انہوں نے آیت ۳:۱۳۰ ﴿يا اَيهاالَّذِين آمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوْا الرِّبَا اَضْعَافًا مُّضَاعفةً﴾کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت میں سود سے متعلق أضعافا مضاعفۃکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور لوگوں کو دوگنا چوگنا سود وصول کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ انہوں نے موقف اختیار کیا کہ اگر سود کی رقم دوگنی چوگنی رفتار سے بڑھتی نہیں ہے تو ایسے سود کی اسلام میں اجازت ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک سود کی ظالمانہ شرح ہی ناجائز ہے۔ راجہ محمد اکرم نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ سود کے متعلق ہدایات دراصل قانونی درجہ نہیں رکھتیں بلکہ اخلاقی درجہ میں ہیں ۔ اس لئے سود کی حرمت کو پاکستان کے عوام پر بذریعہ قانون نافذ کرنا قرین انصاف نہیں ہے۔
2۔ حکومت ِپاکستان کے وکیل رضا کاظم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یونائٹیڈ بنک کی درخواست اور معروضات سے پوری طرح اتفاق کرتی ہے۔ شریعت اپلیٹ بنچ اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد ناممکن ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو ملک میں انارکی پھیل سکتی ہے۔ حکومت دسمبر ۱۹۹۹ء سے ہر ممکن کوشش کررہی ہے کہ سود سے پاک نظام قائم کرے مگر اس میں کامیابی نہیں ہو پا