کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 5
سامنے فریقین کی طرف سے ۵۰۰ سے زائد کتب کے حوالہ جات پیش کئے گئے۔ جدید اور قدیم معاشی کتب و جرائد کے بے بہا ذخیرے میں سے اہم اقتباسات کی نقول عدالت کے ریکارڈ پر لائی گئیں اور ڈیڑھ ہزار سال میں لکھی جانے ولی قرآنی تفاسیر اور فقہی آرا کے ہزاروں صفحات پر مشتمل سود سے متعلق مباحث کو عدالت کے علم میں لایا گیا۔ قرآنِ مجید کے حوالوں کے علاوہ تقریباً دو ہزار احادیث بھی سند کے طور پر پیش کی گئیں ۔ اس سارے مواد کی چھان پھٹک، عمیق مطالعے اور علماء ووکلا کی بحث سماعت کرنے کے بعد شریعت اپلیٹ بنچ نے وفاتی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے جدید بنکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلام کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون ۲۰۰۱ء تک تمام غیر اسلامی قوانین کو تبدیل کرکے سود سے پاک کردے۔ جون ۲۰۰۱ء سے قبل حکومت نے دوبارہ ایک درخواست شریعت بنچ کے سامنے دائر کی اور سودی نظام کو ختم کرنے کے لئے مزید دو سال کی مہلت طلب کی۔ عدالت نے درخواست کی سماعت کے بعد حکومت کی استدعا منظور کرتے ہوئے دو سال کے بجائے ایک سال کی مہلت دے دی اور ہدایت کی کہ جون ۲۰۰۲ء تک تمام قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور سود کو ختم کرنے کے اقدامات مکمل کرلئے جائیں ۔ انصاف اور ایمان داری کا تقاضا تو یہی تھا کہ حکومت کی اپنی استدعا پر حاصل ہونے والی مہلت میں خلوصِ نیت سے سودی قوانین کی تبدیلی کا کام مکمل کیا جاتا۔ لیکن عملاً کوئی نظر آنے والی پیش رفت نہ کی گئی بلکہ حسب ِمعمول سود کی بنیاد پر نئی اسکیمیں اور نئے قرضے حاصل کئے جاتے رہے اور جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی تو یونائٹیڈ بنک آف پاکستان نے (جو حکومت کے زیر انتظام چلنے والا بنک ہے) ایک نظرثانی کی درخواست عدالت میں داخل کردی جس میں کہا گیا کہ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپلیٹ بنچ کے فیصلوں میں بہت سے قانونی نقائص رہ گئے ہیں اور یہ کہ عدالت کے سامنے پیش ہونے والے مواد کو درست طور پر پڑھا اور صحیح طور پر سمجھا نہیں گیا ہے، اس لئے اس فیصلے پر نظرثانی کی جانی چاہئے۔ عین انہی ایام میں ایک اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ شریعت اپلیٹ بنچ کے فاضل رکن جسٹس محمد تقی عثمانی کو …جوسود سے متعلق اپیل کا فیصلہ لکھنے والے ججوں میں شامل تھے… بغیر کوئی وجہ بتائے اپلیٹ بنچ سے فارغ کردیا گیا اور بنچ میں جناب ڈاکٹر خالد محمود اور جناب رشید احمدجالندھری کو علما ججوں کی حیثیت سے شامل کرلیا گیا۔ اس طرح نظرثانی کی درخواست کی سماعت جس بنچ نے کی، ان میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس شیخ ریاض احمد، جسٹس منیر اے شیخ، جسٹس قاضی محمد فاروق، جسٹس ڈاکٹر خالد محمود