کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 4
۱۵۷ صفحات پر مشتمل اپنا تاریخی فیصلہ سنایا۔ وفاقی شرعی عدالت چیف جسٹس تنزیل الرحمن،جسٹس فدا محمد خان اور جسٹس عبیداللہ خان پر مشتمل تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں نہ صرف یہ کہ سود کی تعریف متعین کی بلکہ ملک میں رائج تمام قوانین کا جائزہ لے کر بنکاری سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دے دیا اور حکومت اور تمام صوبوں سے کہا کہ وہ ۳۰/ جون ۱۹۹۲ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلے۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ یکم جولائی ۱۹۹۲ء سے تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کے ناطے ممنوع قرار پاجائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ فیصلے کو عوامی سطح پر زبردست پذیرائی ملی لیکن بنکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر سودی نظام ممنوع قرار پاگیاتو بین الاقوامی سطح پر قرضوں کے حصول میں مشکلات پیدا ہوجائیں گی اور عالمی منظر میں تجارتی سرگرمیوں پراثر پڑے گا۔ نتیجہ یہ کہ جون ۱۹۹۲ء کے آتے آتے مالیاتی اداروں اور بنکوں کی جانب سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف شریعت اپلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ۱۱۸ کے لگ بھگ اپیلیں دائر کردی گئیں ۔ شریعت اپلیٹ بنچ نے ان اپیلوں کی کئی ماہ تک مسلسل سماعت کی۔ اس فاضل بنچ میں مسٹر جسٹس خلیل الرحمن خان بطورِ چیئرمین شریک تھے۔ جبکہ مسٹر جسٹس وجیہ الدین احمد، مسٹر جسٹس منیر اے شیخ، مسٹر جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی اور مسٹر جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی بطورِ ممبر شامل تھے۔ مقدمے کی سماعت جولائی ۱۹۹۹ء میں اپنے انجام کو پہنچی۔ معزز عدالت نے اس دوران مقدمہ میں زیر بحث آنے والے اہم فقہی مسائل اور سوالات پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے فریقین کے وکلا حضرات کے علاوہ بینکنگ کے ماہرین، معاشیات کا درک رکھنے والے سکالرز اور علماءِ کرام سے اپیل کی کہ وہ عدالت کی معاونت کریں ۔ عدالت نے از خود بھی اسلامی بنکاری سے متعلق ایک درجن سے زیادہ قانون دانوں ، معاشی ماہرین، محققین اور علما سے رابطہ کیا جن میں ڈاکٹر وقار مسعود، ڈاکٹر ارشد زمان، عمر چھاپرا، پروفیسر خورشیداحمد، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی، عبدالجبار خان، خالد ایم اسحق، ابراہیم سادات، ڈاکٹر نواب حیدر نقوی، سید طاہر، مولانا گوہر رحمن، ایس ایم احسن،خالد مجید، صبغت اللہ، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد اور ایس ایم ظفر جیسے ممتاز ماہرین شامل تھے۔ اس موقع پر فاضل عدالت نے اپنے وکلا اور سکالرز کی سہولت کے لئے کم از کم ۱۰ سوالات بھی مرتب کئے جو زیر سماعت ۱۱۸/ اپیلوں میں اُٹھائے گئے نکات میں سے اخذ کئے گئے تھے۔ ان سوالات کے سرسری مطالعے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی تھی کہ ان کے جوابات ہی دراصل سود سے متعلق اس اہم مقدمے میں بنیادی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس مقدمے کی سماعت اور بحث کے دوران عدالت کے