کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 34
دار الافتاء شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ٭ اُمرا کے لئے صدقہ وخیرات کے استعمال کا حکم ٭ بلا قصد دی جانے والی طلاق کا حکم ٭ طہارت کے مسائل ٭ سوال: کیا کھانے پینے کی چیز ایصالِ ثواب کے لئے تقسیم کرنااور متوسط طبقہ کے لوگوں کے لئے اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب: کسی بھی چیز کو میت کی طرف سے صدقہ وخیرات کیا جاسکتا ہے، عام صدقہ سے تو متوسط طبقہ کے لوگ کھاپی سکتے ہیں لیکن واجب صدقہ سے ان کا کھانا پینا درست نہیں مثلاً میت نے کوئی نذر مانی تھی یا اس کے ذمہ کوئی قرض یا کفارہ تھا۔ ٭ سوال: اَولیاء کرام کو ایصالِ ثواب کے لئے کچھ اللہ کی راہ میں دینا درست ہے یا نہیں ؟ جواب: ایصالِ ثواب کے لئے عمومی صدقہ کرنا مجموعی طور پر ثابت ہے اور مخصوص شخصیت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنے سے عوام کا مقصود ان کا تقرب حاصل کرنا ہوتا ہے جو درست عمل نہیں ۔ کیونکہ فوت شدہ اولیا کا تقرب حاصل کرنا، اور اس کے بعد ان سے مرادیں مانگنا، اور انہیں وسیلہ بنانا وغیرہ سارے شرکیہ افعال ہیں ۔ ٭سوال: ہم سوئم، چہلم وغیرہ میں شرکت نہیں کرتے۔ بعض اوقات ان رسومات پر تقسیم شدہ کھانا آجاتا ہے، کیا اسے پھینک دیں یا کھا سکتے ہیں ؟ اس کا کھانا حرام ہے یا مکروہ؟ اس صورت میں کہ ایسی محافل کی حوصلہ افزائی کا کسی قسم کا شائبہ تک موجود نہ ہو۔ جواب: ایسا کھانا جانوروں کو کھلا دیا جائے، اس کا کھانا کراہت سے خالی نہیں ۔ ٭ سوال: اولیاء کرام کے مزاروں پر چڑھائے جانے والے نذرانے محکمہ اوقاف میں جمع ہوتے ہیں ۔ محکمہ اوقاف کے کسی فلاحی شعبہ مثلاً ہسپتال وغیرہ سے استفادہ کرنا جائز ہے؟ جواب: جس شعبہ کے بارے میں یقین ہو کہ یہاں خالصتاً مزاروں کے نذرانے ہی صرف ہورہے ہیں تو وہاں استفادہ سے بچنا چاہئے۔اگر یقین نہ ہو تو استفادہ جائز ہے لیکن پھر بھی کراہت سے خالی نہیں ۔ ٭ سوال: عیدالاضحی میں قربانی کرنے والا جس قدر گوشت اپنے لئے رکھنا چاہے، رکھ سکتا ہے یا تیسرے حصے سے زیادہ نہیں رکھ سکتا؟ جواب: قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا اہل علم کے نزدیک مستحب ہے، واجب نہیں ۔ ضرورت کی بنا پر اگر کوئی زیادہ بھی رکھ لے تو کوئی حرج نہیں ۔ (تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو : مرعاۃ المفاتیح:۲/۲۶۹)