کتاب: محدث شمارہ 262 - صفحہ 33
بارش ہو، یہ روایت صحیح نہیں اور نہ اس کی اسناد ثابت ہیں ۔‘‘اس حدیث میں درج ذیل سقم ہیں : 1. یہ بات یاد رہے کہ دارمی میں صحیح وضعیف ہر طرح کی روایات درج ہیں جیسا کہ علامہ عراقی کا بیان ہے کہ ’’دارمی میں مرسل، معضل، منقطع اور مقطوع حدیثیں موجود ہیں ۔‘‘ 2. اس کی سند میں ایک راوی محمد بن فضل ابوالقعان بصری ہے۔ جسے آخری عمر میں خلل دماغ اور نسیان واقع ہوگیاتھا(الکواکب النیرات:۵۲ اور تقریب: ۳۱۵) دوسرا راوی سعید بن زید ہے ۔ میزان (۲/۱۳۸) میں اس کو’ضعیف‘، کاشف میں امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے ’غیر قوی‘ اور خلاصہ میں امام نسائی نے ’غیرقوی‘ قرار دیا ہے۔ الکامل (۳/۱۲۱۲) اور تہذیب التہذیب (۴/۳۳) کے مطابق بھی یہ راوی ضعیف ہے۔تیسرا راوی عمرو بن عبدالمالک النکری ہے۔ اس کے متعلق تقریب (ص ۳۹) میں ہے ’’له أوھام‘‘ (یہ بہت وہمی ہے) چوتھا راوی ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ ہے تقریب میں یرسل کثیرا یعنی وہ درمیان سے راوی چھوڑ جاتا ہے۔ یہ ہے اس حدیث کی اسنادی حیثیت۔ گویا یہ حدیث ضعیف اور منقطع ہے اور دونوں اقسام حدیث کی مردود اقسام میں شمار ہوتی ہیں ۔ 3. عقائد کے سلسلہ میں حنفی حضرات خبر واحد کو حجت تسلیم نہیں کرتے خواہ وہ حدیث صحیح الاسناد اور مرفوع ہی کیوں نہ ہو جبکہ توسل کا مسئلہ بھی عقائد سے تعلق رکھتا ہے لیکن احناف اس سلسلہ میں اس قدر نیچے اُتر آئے ہیں کہ ضعیف بلکہ موضوع احادیث کو بھی بطورِ حجت پیش کررہے ہیں !! (جاری ہے)